سورة الشورى - آیت 24

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا یہ کہتے ہیں کہ (پیغمبر نے) اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے (١) اور اللہ تعالیٰ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے (٢) اور سچ کو ثابت رکھتا ہے۔ وہ سینے کی باتوں کو جاننے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: ’’ اَمْ‘‘ کے لفظ سے پہلے ایک جملہ ظاہر یا مقدر ہوتا ہے جو ہمزہ استفہام سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنے کے بعد کہ تمھیں دین کی دعوت دینے سے مقصود سراسر تمھارا فائدہ اور تمھاری نجات ہے، اس میں تم سے میری کوئی ذاتی غرض نہیں، نہ ہی میں اس پر تم سے کسی مزدوری کا سوال کرتا ہوں۔ ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ کم از کم رشتہ داری کی وجہ سے میرا دوستی کا حق تو ادا کرو۔ اس سے آگے اس مفہوم کی عبارت مقدر مانی جائے گی کہ آیا وہ یہ دعوت قبول کرتے ہوئے آپ پر ایمان لاتے ہیں ’’ اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰى ‘‘ یا ضد اور عناد پر قائم رہ کر یہی بات کہے جاتے ہیں کہ اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے۔ فَاِنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخْتِمْ عَلٰى قَلْبِكَ: مفسرین نے اس کی تفسیر کئی طرح سے کی ہے، زیادہ واضح دو تفسیریں یہاں درج کی جاتی ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اگر تو نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہو، جیسا کہ یہ جاہل کہہ رہے ہیں تو اگر وہ چاہے تو ’’ يَخْتِمْ عَلٰى قَلْبِكَ ‘‘ وہ تیرے دل پر مہر لگا دے اور جتنا قرآن تجھے عطا کیا ہے وہ تجھ سے سلب کر لے، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے : ﴿ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل (44) لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِيْنَ ﴾ [ الحاقۃ : ۴۴ تا ۴۷ ] ’’اور اگر وہ ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا۔ تو یقیناً ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔ پھر یقیناً ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی( ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ ‘‘ یعنی ہم اس سے شدید ترین انتقام لیں اور کوئی شخص اسے بچا نہ سکے۔ (ابن کثیر) مزید تفصیل سورۂ حاقہ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ مفسر قاسمی نے فرمایا : ’’یہ قرآنی آیات کی تفسیر قرآن کی آیات کے ساتھ ہے، جہاں ممکن ہو یہ تفسیر سب سے بہتر ہوتی ہے، کیونکہ قرآنی آیات ایک دوسری کی تفسیر کرتی ہیں۔ اس مفہوم کے مطابق آیت کا مآل جیسا کہ ابو السعود نے وضاحت فرمائی کفار کی بات کی تردید ہے، یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑ تے تو اللہ آپ کو ہر حال میں اس سے روک دیتا اور آپ کے دل پر ایسی مہر لگاتا کہ نہ آپ کی زبان پر وحی کا کوئی لفظ آتا اور نہ آپ کے دل میں اس کا کوئی مفہوم آتا، جب ایسا نہیں ہوا بلکہ وحی تواتر کے ساتھ جاری رہی تو ثابت ہو گیا کہ وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔‘‘ دوسری تفسیر مفسر شہاب کے الفاظ میں یہ ہے : ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ چاہے تو تیرے دل پر مہر لگا دے، جیسے اس نے ان (بہتان لگانے والے کافروں) کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دلائی ہے اور آپ پر اپنا احسان و اکرام یاد دلایا ہے (کہ اس نے آپ کے دل پر مہر نہیں لگائی) تاکہ آپ اس کی وجہ سے شکر ادا کریں اور ان لوگوں کے حال پر ترس کھائیں جن کے دل پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی اور وہ اپنے رب کے غضب کے حق دار بن گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی یہ جرأت نہ کرتے کہ آپ پر یہ بہتان باندھیں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر ان پر گمراہی کی مہر نہ لگ گئی ہوتی تو وہ یہ محال بات کہنے کی جرأت نہ کرتے۔‘‘ (منقول از قاسمی) وَ يَمْحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ....: ’’ يَمْحُ ‘‘ اصل میں ’’ يَمْحُوْ ‘‘ ہے۔ اس کا عطف ’’ يَخْتِمْ ‘‘ پر نہیں اور نہ ہی حالت جزم میں ہونے کی وجہ سے اس کی ’’واؤ‘‘ گری ہے، بلکہ یہ نیا جملہ ہے اور رفعی حالت میں ہونے کی وجہ سے ’’واؤ‘‘ اپنی جگہ قائم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے رسم الخط میں یہاں ’’واؤ‘‘ نہیں لکھی گئی، کیونکہ بعض مقامات پر پڑھنے میں جو حروف نہیں آتے تھے انھوں نے وہ لکھنے میں بھی حذف کر دیے ہیں، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۱۱) : ﴿ وَ يَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَيْرِ ﴾ اور سورۂ علق کی آیت (۱۸) : ﴿سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ﴾ میں ’’واؤ‘‘ نہیں لکھی گئی۔ مسلمانوں نے بعد میں قرآن مجید کے لیے اسی رسم الخط کو محفوظ رکھا۔ بعض اہلِ علم نے ’’ يَمْحُ ‘‘ کی واؤ حذف کرنے میں یہ نکتہ نکالا ہے کہ باطل کو مٹانے اور محو کرنے میں مبالغے کے اظہار کے لیے ’’ يَمْحُوْ ‘‘ کی ’’واؤ‘‘ کو بھی محو کر دیا ہے۔ 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ باطل کو مٹاتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ساتھ ثابت کر دیتا ہے، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اللہ پر جھوٹ گھڑیں اور اللہ تعالیٰ اسے نہ مٹائے، بلکہ آپ کو ہر قدم پر اپنی فتح و نصرت کے ساتھ نوازتا جائے۔ یہ دلیل ہے کہ آپ حق لے کر آئے ہیں اور وہ شخص بدترین بہتان باز ہے جو کہتا ہے کہ آپ نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے۔ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: یعنی اسے سینوں میں چھپی ہوئی نیتوں اور ارادوں کا خوب علم ہے، وہ اپنی رسالت کے ساتھ کبھی بھی بدطینت و جھوٹ گھڑنے والوں کو نہیں نوازتا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ [ الأنعام : ۱۲۴ ]’’اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔‘‘ اس نے اپنے کامل علم ہی کی بنا پر آپ کو اس منصب کے لیے منتخب فرمایا ہے۔