وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا (١) لیکن جسے چاہتا اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں۔
1۔ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً: یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فریق جنتی اور ایک جہنمی کیوں بنایا، سبھی کو ایک جیسا کیوں نہیں بنا دیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا تو جس طرح اس نے کائنات کی تمام چیزوں کو بے اختیار بنایا ہے وہ جن و انس کو بھی کسی قسم کا اختیار نہ دیتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو وہ سب دین حق پر ہوتے، مگر اس نے انھیں اختیار اور ارادہ میں آزادی دے کر پیدا فرمایا، تاکہ ان کا امتحان ہو اور اس کی صفات رحمت، غضب اور عدل کا ظہور ہو۔ یہ اس کی مشیت ہے، جس میں بے شمار حکمتیں ہیں، جنھیں پوری طرح وہی جانتا ہے، انسان چاہے بھی تو ان کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا، وہ اتنا ہی جان سکتا ہے جتنا پروردگار چاہے۔ 2۔ وَ لٰكِنْ يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهٖ: نیکی و بدی کی تمیز اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی دینے کے بعد وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے، مگر اس کی یہ مشیت اندھی نہیں کہ اس کا کوئی قاعدہ نہ ہو، بلکہ اس سے اگلے جملے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کے حق دار بنتے ہیں اور وہ کون ہیں جو اس سے محروم رہتے ہیں۔ 3۔ وَ الظّٰلِمُوْنَ مَا لَهُمْ مِّنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ: قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’ظلم‘‘ اور ’’ظالمين‘‘ کا لفظ شرک اور مشرکین کے لیے استعمال ہوتا ہے (دیکھیے انعام : ۸۲) اور ’’قسط‘‘ اور ’’عدل‘‘ کا لفظ توحید کے لیے آیا ہے، کیونکہ سب سے بڑا ظلم شرک ہے اور سب سے بڑا عدل توحید ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ﴾ [آل عمران : ۱۸ ] ’’اللہ نے گواہی دی کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے۔‘‘ ارادہ و عمل کا اختیار ملنے کے بعد جن لوگوں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اپنے خالق و مالک اور رازق کو اکیلا معبود بنانے اور اسی کی عبادت پر قائم رہنے کے بجائے غیروں کو معبود بنایا، جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، تو ان کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔ معلوم ہوا ایسے لوگ اللہ کی رحمت میں داخل نہیں ہوں گے، کیونکہ انھیں اپنی رحمت میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ کے عدل اور مشیت کے خلاف ہے اور وہ خود بھی اللہ کی رحمت سے ناامید ہیں، ورنہ کبھی غیروں کی طرف نہ جاتے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اُولٰٓىِٕكَ يَىِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ ﴾ [ العنکبوت : ۲۳ ] ’’وہ میری رحمت سے ناامید ہو چکے ہیں۔‘‘یہی بات نہایت وضاحت کے ساتھ سورۂ دہر (۲۹، ۳۰) میں بیان فرمائی گئی ہے۔ہاں، جو لوگ ایمان لائے اور اس میں ظلم عظیم یعنی شرک کی آمیزش نہیں کی وہی اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور وہی اس کی امید رکھ سکتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اُولٰٓىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ﴾ [ البقرۃ : ۲۱۸ ] ’’وہی اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔‘‘ 4۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کچھ لوگ حق واضح ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے اور کفر و شرک پر اڑے رہتے ہیں تو آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا، مگر یہ جبر ہوتا جو اللہ تعالیٰ کی مشیت نہیں۔ اس نے اپنی حکمت اور مشیت کے تحت انسان کو اختیار دے رکھا ہے، جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کفر کرے، اس لیے لوگوں میں یہ اختلاف ہمیشہ رہے گا۔ یہ مضمون متعدد آیات میں بیان ہوا ہے، دیکھیے سورۂ یونس (۹۹، ۱۰۰)، ہود (۱۱۸، ۱۱۹) اور سورۂ سجدہ (۱۳)۔