سورة الشورى - آیت 7

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے (١) تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں اور جمع ہونے کے دن (٢) جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا: قرآن عربی زبان میں نازل کرنے کی چند حکمتوں کے جاننے کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف کی آیت(۲) کی تفسیر۔ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا: ’’ اُمَّ الْقُرٰى ‘‘ کا معنی بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ یا اصل ہے، یعنی بستیوں کا مرکز۔ مراد مکہ معظمہ ہے، کیونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے سب سے پہلا گھر یہیں تعمیر ہوا، جسے تمام دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا گیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَ﴾ [ آل عمران : ۹۶ ]’’بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، یقیناً وہی ہے جو بکہ میں ہے، بہت با برکت اور جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘ تمام دنیا کے لوگوں کے لیے اس شہر میں موجود بیت اللہ کا حج صاحبِ استطاعت لوگوں پر فرض کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمام روئے زمین سے بہتر قرار دیا۔ عبد اللہ بن عدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’حَزْوَرَةٌ ‘‘ (شہر مکہ کی ایک جگہ) پر کھڑے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَاللَّهِ ! إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللّٰهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰهِ إِلَی اللّٰهِ وَلَوْلاَ أَنِّيْ أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ )) [ ترمذي، المناقب، باب في فضل مکۃ : ۳۹۲۵، و قال الألباني صحیح ] ’’اللہ کی قسم! یقیناً تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر اور اللہ کی زمین میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر مجھے اس سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا یہاں سے ہوئی اور آپ کی دعوت کا آغاز یہیں سے ہوا۔ 3۔ یہاں ایک سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کل عالم اور تمام روئے زمین کے لیے ڈرانے والے تھے، پھر یہاں آپ کے بھیجنے کا مقصد صرف مکہ اور اس کے اردگرد کو کیوں بتایا گیا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اوّل تو ’’ مَنْ حَوْلَهَا ‘‘ میں پوری زمین شامل ہے، مکہ پوری زمین کا مرکز ہے، سب اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور اس کے حج کے لیے جاتے ہیں۔ اگر ’’ مَنْ حَوْلَهَا ‘‘ سے قریب قریب ارد گرد کی بستیاں مراد لی جائیں تب بھی آپ کو مکہ اور اس کے ارد گرد ڈرانے کے لیے بھیجنے کی بات کا مقصد یہ نہیں کہ آپ دوسری اقوام کی طرف مبعوث نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ [الشعراء : ۲۱۴ ] ’’اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔‘‘ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ صرف قریبی رشتہ داروں کے لیے مبعوث ہوئے تھے، ورنہ اہلِ مکہ و مدینہ کو دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ام القریٰ اور اس کے ارد گرد لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجنے کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو یہاں تک محدود کرنا نہیں۔ اس بات کا ذکر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام جن و انس کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۹)، اعراف (۱۵۸)، فرقان (۱)، احقاف (۲۹ تا ۳۲) اور سورۂ سبا (۲۸)۔ وَ تُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ: ’’ أَنْذَرَ يُنْذِرُ ‘‘ (ڈرانا) کے دو مفعول ہوتے ہیں، کیونکہ ڈرانے میں دو چیزیں ملحوظ ہوتی ہیں، ایک یہ کہ کسے ڈرایا جا رہا ہے اور دوسری یہ کہ اسے کس چیز سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اس آیت میں ’’ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا ‘‘ اور ’’ وَ تُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ ‘‘ دو جملے ہیں، دونوں میں ’’ تُنْذِرَ ‘‘ کے دو دو مفعول ہیں۔ پہلے جملے میں پہلا مفعول ذکر فرمایا اور دوسرا حذف کر دیا، جو آیت کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے : ’’أَيْ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرٰي وَ مَنْ حَوْلَهَا الْعَذَابَ‘‘ ’’یعنی تاکہ تو امّ القریٰ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو عذاب سے ڈرا دے۔‘‘ دوسرے جملہ میں پہلا مفعول حذف کر دیا اور دوسرا ذکر فرمایا : ’’ أَيْ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا يَوْمَ الْجَمْعِ‘‘ ’’یعنی تاکہ تو امّ القریٰ اور اس کے ارد گرد کی بستیوں کو یوم الجمع سے ڈرا دے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی قرآن وحی کیا، تاکہ تو بستیوں کے مرکز اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو گزشتہ اقوام پر آنے والے عذاب سے ڈرائے اور تاکہ تو ام القریٰ اور اس کے اردگرد کی بستیوں کو گزشتہ اقوام جیسے عذاب کے ساتھ ساتھ یوم الجمع سے بھی ڈرائے۔ اتنی لمبی بات کو ان مختصر الفاظ میں سمیٹ دیا : ﴿ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا وَ تُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ﴾ اسے احتباک کہتے ہیں اور اس سے کلام میں اختصار، جامعیت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ 5۔ ’’ يَوْمَ الْجَمْعِ ‘‘ قیامت کے دن کو کہتے ہیں، کیونکہ اس دن سب پہلے پچھلے جمع ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ﴾ [ التغابن : ۹ ] ’’جس دن وہ تمھیں جمع کرنے کے دن کے لیے جمع کرے گا، وہی ہار جیت کا دن ہے۔‘‘ لَا رَيْبَ فِيْهِ: ’’جس میں کوئی شک نہیں‘‘ کیونکہ یہ بات فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ مالک اپنے غلاموں کو کسی کام پر مقرر کرے، پھر وہ ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کریں تو ضروری ہے کہ وہ کسی دن انھیں اکٹھا کر کے مظلوم کو ظالم سے انصاف دلائے، اگر ایسا نہیں کرے گا تو بے انصاف شمار ہو گا۔ تو احکم الحاکمین کے سب کو جمع کرنے کے دن میں کیا شک ہو سکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ کچھ لوگ اس میں شک کرتے ہیں، تو ان کے شک کو کالعدم قرار دیا کہ اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ: یہ ’’ يَوْمَ الْجَمْعِ ‘‘ کا انجام ہے کہ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائے گا۔