وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَدْعُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَظَنُّوا مَا لَهُم مِّن مَّحِيصٍ
اور یہ جن (جن) کی پرستش اس سے پہلے کرتے تھے وہ ان کی نگاہ سے گم ہوگئے (١) اور انہوں نے سمجھ لیا ان کے لئے کوئی بچاؤ نہیں (٢)
1۔ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ: یعنی پریشانی کے عالم میں وہ چاروں طرف نظر دوڑائیں گے کہ عمر بھر جنھیں پکارتے رہے، شاید ان میں سے کوئی مدد کو آ جائے، انھیں عذاب سے چھڑا لے، یا اس میں کچھ کمی ہی کروا دے، مگر کوئی مددگار نظر نہیں آئے گا۔ 2۔ وَ ظَنُّوْا مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ: ’’حَاصَ يَحِيْصُ حَيْصًا ‘‘ (ض) بھاگنا۔ ’’ مَحِيْصٍ ‘‘ مصدر میمی ہے یا ظرف۔ مصدر کا معنی ہو گا بھاگنے کی کوئی صورت اور ظرف کا معنی ہے بھاگنے کی کوئی جگہ۔ ’’ظن‘‘ کا لفظ گمان کے علاوہ یقین کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (دیکھیے بقرہ : ۴۶) یہاں بھی ’’ ظَنُّوْا ‘‘ یقین کے معنی میں ہے، کیونکہ قیامت کے دن تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آ جائیں گی اور کسی کو کوئی شک باقی نہیں رہے گا، حتی کہ کفار خود کو یقین ہو جانے کا اقرار کریں گے، فرمایا : ﴿رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۱۲ ] ’’اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، پس ہمیں واپس بھیج کہ ہم نیک عمل کریں، بے شک ہم یقین کرنے والے ہیں۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ مریم (۳۸)، سورۂ ق (۲۲) اور سورۂ انعام (۳۰)۔ مطلب یہ ہے کہ کفار کے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں میں سے کوئی انھیں نظر نہیں آئے گا اور انھیں یقین ہو جائے گا کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھاگ نکلنے کی کوئی جگہ ہے نہ اس کی کوئی صورت۔