وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی (١) برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہوجائے گا جیسے دلی دوست۔ (٢)
1۔ وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ....: اس آیت میں دعوت کے مخاطب لوگوں کی زیادتی اور برائی کا جواب دینے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ عام طور پر ’’ وَ لَا السَّيِّئَةُ ‘‘ کے’’ لَا ‘‘ کو زائد کہہ کر ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ’’نیکی اور برائی برابر نہیں۔‘‘ بعض حضرات اسے زائد برائے تاکید کہہ دیتے ہیں، حالانکہ قرآن مجید کے کسی لفظ بلکہ حرف کو زائد کہنے کے بجائے وہ فائدہ سمجھنے کی کوشش ضروری ہے جس کے لیے وہ لفظ لایا گیا ہے، جو بظاہر زائد ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اس بات سے کہ بلا ضرورت کوئی لفظ لائے۔ اصل میں یہاں بات بیان ہو رہی ہے کہ نیکی برابر نہیں، نہ اپنی جنس کے افراد کے لحاظ سے، کیونکہ نیکیوں کے بے شمار درجے ہیں، کوئی کمتر درجے کی نیکی، کوئی اس سے برتر اور کوئی سب سے برتر، جیسا کہ حدیث میں ہے : (( فَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِيْقِ وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ )) [ ترمذي، الإیمان، باب في استکمال الإیمان....: ۲۶۱۴ ] ’’سب سے کمتر نیکی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا اور سب سے اونچی لا الٰہ الا اللہ کہنا۔‘‘ اور نہ ہی ایک نیکی اپنے درجات کے اعتبار سے برابر ہے، مثلاً کسی کے ساتھ حسن سلوک کے کئی درجے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی نیکی اپنے کرنے والوں کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی برابر نہیں، کوئی اسے خالص نیت سے کرتا ہے اور کوئی ریا سے، کوئی پوری کوشش سے کرتا ہے، کوئی درمیانی کوشش سے اور کوئی بے دلی سے۔ غرض کوئی بھی نیکی نہ دوسری نیکیوں کے ساتھ برابر ہے، نہ اپنی ذات میں برابر ہے اور نہ کرنے والوں کے لحاظ سے برابر ہے۔ 2۔ وَ لَا السَّيِّئَةُ: برائی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ برابر نہیں۔ زبانی دشمنی اور تیر تلوار کے ساتھ دشمنی میں فرق ہے، ابوطالب اور ابوجہل کے کفر میں فرق ہے۔ اس لیے آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔‘‘ شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین دونوں کے ترجمہ میں یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے۔ 3۔ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ: یعنی برائی کا جواب صرف یہ نہیں کہ نیکی کے ساتھ دو، بلکہ اس طریقے سے دو جو سب سے اچھا ہے اور نیکی کا سب سے اونچا درجہ ہے۔ یہ سب سے اچھا طریقہ بعض اوقات اچھی بات اور اچھا لہجہ ہوتا ہے، جیسا کہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے : (( أَمَرَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ بِالصَّبْرِ عِنْدَ الْغَضَبِ، وَ الْحِلْمِ وَالْعَفْوِ عِنْدَ الْإِسَائَةِ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمَهُمُ اللّٰهُ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَخَضَعَ لَهُمْ عَدُوُّهُمْ، كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ )) [ طبري : ۳۰۷۹۴۔ السنن الکبرٰی للبیہقي :7؍45، ح : ۱۳۶۸۰ ] ’’اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو غصے کے وقت صبر کا اور بدسلوکی کے وقت حلم اور عفو کا حکم دیا، تو جب وہ ایسا کریں گے اللہ تعالیٰ انھیں شیطان سے بچائے گا اور ان کا دشمن ان کے لیے زیر ہو جائے گا، گویا کہ وہ دلی دوست ہے۔‘‘ اور بعض اوقات سب سے اچھا طریقہ خوش اخلاقی اور بہترین بات کے ساتھ ساتھ جہاد بالید ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو سب سے بہتر امت قرار دیا (دیکھیے آل عمران : ۱۱۰) اور جس کی وجہ سے بڑے بڑے دشمن دلی دوست بن جاتے ہیں، جیسے ثمامہ بن اثال، ابوسفیان، صفوان بن امیہ، حارث بن ہشام رضی اللہ عنھم اور بے شمار کفار جو جہاد کی برکت سے جگری دوست بن گئے۔ آج بھی جب تک کافر ملکوں کے فرماں رواؤں کی گردنوں کے سریے کاٹ کر انھیں ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی طرح مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر اسلام کی تعلیمات کا آنکھوں سے مشاہدہ نہ کروایا جائے ان کا مسلمان ہونا یا دلی دوست بننا مشکل ہے۔ (مزید دیکھیے رعد : ۲۲) مومن نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو ہوتا ہے۔