وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے (١) تھے اور ان کے حق میں بھی اللہ کا قول امتوں کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی گزر چکی ہیں۔ یقیناً وہ زیاں کار ثابت ہوئے۔
1۔ وَ قَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ ....:’’ قُرَنَآءَ ‘‘ ’’قَرِيْنٌ‘‘ کی جمع ہے، ساتھ رہنے والا۔ ’’اَلْقَيْضُ‘‘ انڈے کے چھلکے کو کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح چھلکا انڈے کے ساتھ پیوست ہوتا ہے اسی طرح ہم نے ایسے برے لوگ ان مشرکین کے ساتھ لگا دیے جو ان کے ساتھ اس طرح چمٹے رہتے ہیں جس طرح انڈے کا چھلکا چمٹا رہتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اگر انسان برا ہو تو اسے ساتھی بھی برے میسر آتے ہیں، جو اسے سبز باغ دکھاتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان برائیوں میں مگن ہو جاتا ہے اور آخر کار خود کو اپنے ساتھیوں سمیت لے ڈوبتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ زخرف (۳۶) اور سورۂ ق (۲۳ تا ۲۹)۔ 2۔ فَزَيَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ....: ’’ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ‘‘سے مراد وہ اعمال ہیں جو وہ دنیا میں کر رہے تھے اور ’’وَ مَا خَلْفَهُمْ ‘‘ سے مراد وہ اعمالِ بد ہیں جو اس سے پہلے کر چکے تھے۔ یعنی وہ برے ساتھی ان کے لیے ان کے موجودہ اور گزشتہ تمام برے اعمال کو خوش نما بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ انھی پر جمے رہتے ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے اعمالِ بد کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے : ﴿ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ﴾ [ ہود : ۱۱۹ ] ’’میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے ضرور ہی بھروں گا۔‘‘ بعض مفسرین نے ’’ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ ‘‘ سے مراد دنیا اور ’’ وَ مَا خَلْفَهُمْ ‘‘ سے مراد آخرت لی ہے۔ یعنی ان کے برے ساتھی آخرت کے متعلق بھی انھیں خوش گمانی میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اوّل تو وہ ہو گی ہی نہیں اور اگر ہوئی بھی تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمھیں دنیا میں نعمتوں سے نوازا ہے وہاں بھی نوازے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ مریم (۷۷)۔