وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اور تم (اپنی بد اعمالیوں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی (١) ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔ (٢)
1۔ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ....: یہ ان کی ملامت کا جواب ہے کہ تم گناہ کا کام کرتے ہوئے لوگوں سے چھپنے اور پردہ کرنے کا تو پورا اہتمام کرتے تھے، مگر تمھیں اس بات کا خوف نہ تھا کہ تمھارے کان، آنکھیں اور چمڑے ہی تمھارے خلاف تمھارے اعمالِ بد کی شہادت دیں گے۔ اگر تمھیں اس بات کا خوف ہوتا تو تم برے اعمال کر ہی نہیں سکتے تھے، کیونکہ انھی اعضا کے ساتھ ہی تو تم نے اللہ کی نافرمانی کرنا تھی۔ 2۔ وَ لٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ ....: یعنی بات صرف اتنی نہ تھی کہ تمھیں یقین نہ تھا کہ قیامت قائم ہو سکتی ہے اور تمھارے اعضا تمھارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں، بلکہ اصل بات یہ تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کے علم کے بھی منکر تھے، تم نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ تمھارے بہت سے اعمال کو جانتا ہی نہیں۔ ورنہ اگر تمھیں یقین ہوتا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے، تمھاری ہر بات سن رہا ہے اور تمھارے ہر حال کا علم رکھتا ہے تو تم گناہ پر اتنے دلیر نہ ہوتے۔ مشرکینِ قریش کی اس نادانی کا ذکر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں : (( اِجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ قُرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ، أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَ قُرَشِيٌّ، كَثِيْرَةٌ شَحْمُ بُطُوْنِهِمْ، قَلِيْلَةٌ فِقْهُ قُلُوْبِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ أَتُرَوْنَ أَنَّ اللّٰهَ يَسْمَعُ مَا نَقُوْلُ؟ قَالَ الْآخَرُ يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا وَلاَ يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، وَ قَالَ الْآخَرُ إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ : ﴿ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَ لَا اَبْصَارُكُمْ وَ لَا جُلُوْدُكُمْ وَ لٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾)) [ بخاري، التفسیر، سورۃ حٰمٓ السجدۃ، باب : وذٰلکم ظنکم الذی....: ۴۸۱۷ ] ’’بیت اللہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قریشی جمع ہوئے، جن کے پیٹ کی چربی بہت تھی، (مگر) دلوں کی سمجھ بہت کم تھی۔ تو ان میں سے ایک نے کہا : ’’کیا تمھارا خیال ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے اللہ تعالیٰ سن رہا ہے؟‘‘ دوسرے نے کہا : ’’اگر ہم اونچی آواز سے کہیں تو وہ سنتا ہے اور اگر آہستہ کہیں تو نہیں سنتا۔‘‘ ایک اور بولا: ’’اگر وہ اس وقت سنتا ہے جب ہم اونچی آواز سے بات کریں تو یقیناً وہ اس وقت بھی سنتا ہے جب ہم آہستہ بات کریں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی : ’’ اور تم اس سے پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمھارے خلاف تمھارے کان گواہی دیں گے اور نہ تمھاری آنکھیں اور نہ تمھارے چمڑے اور لیکن تم نے گمان کیا کہ بے شک اللہ بہت سے کام، جو تم کرتے ہو، نہیں جانتا۔‘‘ یاد رہے کہ اس بات کا مطلب کہ یہ آیت فلاں موقع پر اتری، یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بھی انھی دنوں میں ہوا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں موقع پر یہ آیت پڑھی، یا یہ کہ وہ آیت اس واقعہ پر بھی منطبق ہوتی ہے، جیسا کہ اصولِ تفسیر میں واضح کیا گیا ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ آیات کا سیاق تو قیامت کے دن کے متعلق ہے۔