فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی (١) اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی (٢) یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے۔
1۔ فَقَضٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ: یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان کو جو دخان کی صورت میں تھا، دو دنوں میں پورے سات آسمان بنا دیا۔ 2۔ وَ اَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَهَا: یعنی کائنات کے اس نظام میں ہر آسمان کی اور اس میں رہنے والی ہر مخلوق کی جو ذمہ داری تھی وہ اس کی طرف وحی فرما دی کہ تمھیں یہ کام کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے۔ 3۔ وَ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَ حِفْظًا: ’’ حِفْظًا ‘‘ ’’حَفِظْنَاهَا‘‘ کا مفعول مطلق ہے جو یہاں مقدر ہے اور اس کا عطف لفظ مقدر ’’ زِيْنَةٌ ‘‘ پر ہے جو ’’ زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا ‘‘ کا مفعول مطلق ہے۔ گویا اصل جملہ یہ تھا : ’’ وَ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ زِيْنَةً وَ حَفِظْنَاهَا بِهَا حِفْظًا۔‘‘لفظ ’’ زَيَّنَّا‘‘کی دلالت کی وجہ سے ’’ زِيْنَةً ‘‘ کو حذف کر دیا اور ’’حِفْظًا‘‘ کی دلالت کی وجہ سے ’’حَفِظْنَاهَا‘‘ کو حذف کر دیا۔ اس طرح نہایت خوب صورتی کے ساتھ ایک لمبی بات مختصر لفظوں میں سمیٹ دی۔ یہ قرآن کی بلاغت ہے اور اسے احتباک کہتے ہیں۔ (بقاعی) ’’ حِفْظًا ‘‘ کے مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا گیا ہے ’’خوب محفوظ کر دیا۔‘‘ اس زینت و حفاظت کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورۂ حجر (۱۶ تا ۱۸)، صافات (۶ تا ۱۰) اور سورۂ ملک (۵)۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ ان آیات میں اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر غائب کے صیغے ’’بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ‘‘ کے ساتھ کیا ہے، ’’ زَيَّنَّا السَّمَآءَ ‘‘ میں متکلم کے صیغے کے ساتھ اور ’’ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ‘‘ میں پھر غائب کے ساتھ فرمایا ہے، اسے التفات کہتے ہیں، اس سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور کئی حکمتیں بھی ملحوظ ہوتی ہیں۔ 4۔ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ: یہ سب اس ہستی کا اندازہ اور مقرر کردہ نظام ہے جو عزت و علم کے ساتھ پوری طرح موصوف ہے۔ وہ سب پر غالب ہے، کوئی اس پر غالب نہیں، وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ گزشتہ، موجودہ یا آئندہ کوئی بھی چیز اس سے مخفی نہیں، اس لیے اس کے اس نظام میں کوئی غلطی، کوئی حادثہ نہیں اور کسی اور کا اس نظام میں ذرہ برابر دخل نہیں۔ سلسلۂ کلام ’’ قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ ‘‘ سے شروع ہوا تھا اور ’’ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ‘‘ پر ختم ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پوری کائنات جس نے چھ دن میں پیدا فرمائی، اس میں موجود ہر چیز حتیٰ کہ تمھیں اور ان چیزوں کو بھی پیدا کیا جنھیں تم نے معبود بنا رکھا ہے، کیا تم اس عظیم ہستی کے ساتھ کفر کرتے ہو اور اس کے ساتھ شریک بناتے ہو جس نے یہ سب کچھ کیا ہے؟