ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے (١) دونوں نے عرض کیا بخوشی حاضر ہیں۔
1۔ ثُمَّ اسْتَوٰى اِلَى السَّمَآءِ ....:’’ اسْتَوٰى ‘‘ کے بعد ’’ اِلَى ‘‘ ہو تو اس کا معنی قصد کرنا ہوتا ہے۔ یعنی پھر اللہ نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی، وہ اس وقت دھویں کی صورت میں تھا، تو اسے یعنی آسمان اور زمین دونوں سے کہا ’’ ائْتِيَا ‘‘ (آ جاؤ) یعنی میرے حکم کی اطاعت کرو، خوشی سے کرو یا مجبوری سے، ہر حال میں کرنا پڑے گی۔ 2۔ قَالَتَا اَتَيْنَا طَآىِٕعِيْنَ: ان دونوں نے کہا، ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کائنات میں جو چیزیں طبعی طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہیں، مثلاً فرشتے اس کے حکم کے بغیر کوئی بات کرتے ہیں نہ کوئی کام، اسی طرح سورج، چاند، ستارے، بادل، ہوائیں، سمندر، نباتات اور حیوانات و جمادات، غرض ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہی ہے، ذرہ برابر ادھر ادھر نہیں ہوتی، تو یہ سب چیزیں مجبور ہو کر نہیں بلکہ اپنی رضا اور خوش دلی سے مالک کے حکم پر چل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت ہی اسلام (فرماں برداری اور اطاعت) بنائی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے رب کے احکام سننے، سمجھنے، ان کا جواب دینے اور ان پر عمل کرنے کی پوری سمجھ رکھتی ہے، خواہ ہم اسے ’’ لَا يَعْقِلُ‘‘ (بے سمجھ) خیال کرتے رہیں، کیونکہ لفظ ’’ طَآىِٕعِيْنَ ‘‘ (جمع مذکر سالم) عربی لغت میں ذوی العقول کے لیے آتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم ان کی گفتگو یا تسبیح نہ سمجھ سکیں۔ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل(۴۴)۔