قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ
آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی (٤) سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔
1۔ قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ....: مشرکین کا آخرت کا انکار ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس پر قادر ہونے، بلکہ ہر چیز پر قادر ہونے کے دلائل کا ذکر شروع فرمایا اور دلیل میں ان چیزوں کے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا جو ان کی آنکھوں کے سامنے تھیں اور جن کا خالق وہ خود اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ بات کا آغاز ہمزۂ استفہام، ’’إِنَّ‘‘ اور لام کی تاکید کے ساتھ ہوا ہے۔ اس میں ان کے شرک پر تعجب اور ڈانٹ بھی ہے اور اس بات کا اظہار بھی کہ یقیناً تم شرک کی کمینی حرکت کرتے ہو، حالانکہ کوئی عقل مند سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی انسان زمین و آسمان کے خالق کے ساتھ کفر کرے گا اور اس کے ساتھ شریک بنائے گا۔ تعجب اور ڈانٹ کے ساتھ ساتھ زمین و آسمان کی تخلیق کی تاریخ بھی بیان فرما دی ہے۔ ہمزۂ استفہام اور تاکید کے دونوں حرفوں کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے : ’’کہہ کیا بے شک تم واقعی اس کا انکار کرتے ہو…۔‘‘ 2۔ لَتَكْفُرُوْنَ: یہاں ماضی کا صیغہ ’’ كَفَرْتُمْ ‘‘ (تم نے انکار کیا) لانے کے بجائے فعل مضارع ’’ لَتَكْفُرُوْنَ ‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ صرف یہ نہیں کہ تم اس سے پہلے کفر کر بیٹھے جو کر بیٹھے، بلکہ اتنے دلائل دیکھ اور سن کر بھی کفر سے باز نہیں آئے، بلکہ کفر کرتے ہی چلے جاتے ہو۔ 3۔ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ: جب زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اس وقت سورج کا وجود ہی نہیں تھا جس سے دن رات وجود میں آتے ہیں، تو پھر دو دنوں سے کیا مراد ہے؟ اس کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف کی آیت (۵۴) کی تفسیر۔