سورة غافر - آیت 51

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے (١) اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے (٢) کھڑے ہونگے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا....: سورت کی ابتدا سے یہاں تک آیات کا حاصل یہ تھا کہ نوح علیہ السلام کی قوم نے اور ان کے بعد آنے والے رسولوں کی امتوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا، حق کو شکست دینے کے لیے باطل طریقے سے کج بحثی کی اور ہر ایک نے اپنے رسول کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا، مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں ہلاک کیا اور آخرت میں ان کے لیے شدید ترین عذاب رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کا دفاع کرنے والے مومن کی بھی اسی طرح مدد فرمائی، مگر اللہ تعالیٰ کی اپنے لوگوں کے ساتھ امداد مخفی ہوتی ہے۔ پہلے کئی طرح سے ان کی آزمائش ہوتی ہے، پھر انجام ان کے حق میں ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کی نظر چونکہ ظاہری اسباب پر ہوتی ہے اور وہ ایمانی فراست سے محروم ہوتے ہیں، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کے ذکر کے بعد جن میں ’’إِنَّ‘‘ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا بیان ہے، اب ’’إِنَّ‘‘ اور لام تاکید کے ساتھ اور اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ کرتے ہوئے نہایت زور دار الفاظ میں فرمایا : ﴿ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾ کہ بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، خواہ وہ کسی کی سمجھ میں آ رہی ہو یا نہ، ہمارا قاعدہ یہی ہے۔ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا: یہاں ایک سوال ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی رسول دنیا میں اپنی قوم پر غالب نہ آ سکے، کئی انبیاء قتل ہوئے، ایمان والوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پھر اتنی تاکید کے ساتھ یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ سب سے بڑی مدد تو یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں حق پر ثابت قدم رہتے ہیں، بڑے سے بڑے لالچ یا بڑی سے بڑی آزمائش، حتیٰ کہ شہادت کی صورت میں بھی ان کے قدم ایمان سے نہیں ڈگمگاتے۔ یہ استقامت اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (30) نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ ﴾ [حٰمٓ السجدۃ : ۳۰، ۳۱ ] ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جاؤ جس کاتم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔‘‘ اس کی نصرت ایک مثال اصحاب الاخدود ہیں۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ دلیل و برہان کے لحاظ سے وہ ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں، جیسا کہ فرعون نے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دلیل کے میدان میں شکست کھائی، حتیٰ کہ وہ جادوگر جو مقابلے پر لائے گئے تھے، سجدے میں گر گئے اور ایمان لے آئے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی ذہنی اور قلبی برتری عطا فرماتا ہے کہ ہر قسم کی قوت و شوکت اور ملک و سلطنت کے باوجود ان کی نظر میں کفار کی حیثیت گھاس کے ایک تنکے سے بھی کم ہوتی ہے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ ان کے دشمنوں سے دنیا میں ان زیادتیوں کا بدلا لیا جاتا ہے جو وہ رسولوں اور ایمان والوں پر کرتے رہے۔ (دیکھیے روم : ۴۷) پھر خواہ وہ بدلا رسول کی موجودگی میں لیا جائے، جیسا کہ قوم نوح اور عاد و ثمود کے ساتھ ہوا، خواہ رسول کے بعد لیا جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے اپنے بعض رسولوں کو قتل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے سخت لڑائی والے بندے مسلط کرکے انھیں نہایت عبرت ناک سزا دی، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں مذکور ہے، اور جن یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کا منصوبہ بنایا ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا، جنھوں نے انھیں ہر طریقے سے ذلیل و خوار کیا اور وہ دنیا میں ایسے منتشر ہوئے کہ آج تک کسی نہ کسی قوم کی پناہ کے بغیر کسی جگہ ان کا قیام مشکل ہے۔ (دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل : ۴ تا ۷) اور مدد کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں دنیا میں مادی لحاظ سے فتح و نصرت اور حکومت و سلطنت عطا کر دی جائے، جیسا کہ داؤد اور سلیمان علیھما السلام کی مدد ہوئی۔ ان صورتوں میں سے کسی نبی کو صرف ایک قسم کی مدد حاصل ہوئی، کسی کو دو قسم کی اور کسی کو زیادہ کی۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہر قسم کی مدد سے فیض یاب ہوئے۔ وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ: ’’ الْاَشْهَادُ ‘‘ ’’شَاهِدٌ‘‘ کی جمع بھی ہو سکتی ہے، جیسے ’’صَاحِبٌ‘‘ کی جمع ’’أَصْحَابٌ ‘‘ ہے اور ’’شَهِيْدٌ ‘‘ کی بھی، جیسے ’’شَرِيْفٌ‘‘ کی جمع ’’أَشْرَافٌ‘‘ ہے۔ یعنی اس دن بھی ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی مدد کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ مراد قیامت کا دن ہے جب انبیاء، فرشتے، اہلِ ایمان، زمین اور انسان کے اعضا آدمی کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جنت عطا فرما کر اور ان کے دشمنوں کو جہنم میں پھینک کر اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی مدد فرمائے گا۔ دیکھیے سورۂ مطففین (۲۹ تا ۳۶)۔