مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ
جس نے گناہ کیا ہے اسے تو برابر ہی کا بدلہ ہے (١) اور جس نے نیکی کی ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایماندار ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے (٢) اور وہاں بیشمار روزی پائیں گے (٣)
مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰى اِلَّا مِثْلَهَا....: یہ دنیا دار الامتحان ہے، اس کے باوجود رحمان و رحیم رب تعالیٰ نے اتنی زبردست رعایت رکھی ہے کہ جو شخص کوئی برائی کرے، اسے صرف اس ایک برائی ہی کا بدلا دیا جائے گا، مگر جو شخص ایمان لا کر کوئی صالح عمل کرے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اس میں انھیں بے حساب رزق دیا جائے گا، انھیں نیکیوں کی جزا بھی دس گنا سے سات سو گنا بلکہ حساب و شمار سے بھی زیادہ دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ برائی کی جزا اتنی ہی دی جائے گی جتنی کسی نے برائی کی ہے اور یہ کہ کافر کبھی جنت میں داخل نہیں ہو گا، کیونکہ اگر اس نے اپنے خیال میں کوئی نیکی کی بھی ہے تو اس کا اعتبار ایمان کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ عمل صالح کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے اور عمل صالح وہ ہے جس میں نیت درست ہو، یعنی وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور طریقہ درست ہو، یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیا جائے۔ دیکھیے سورۂ کہف کی آخری آیت کی تفسیر۔