يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ
اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے (١) (یقین مانو کہ قرار) اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے (٢)
يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ....: مرد مومن نے اپنی بات کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں تمھیں جو راستہ بتاتا ہوں حقیقت میں صحیح راستہ وہی ہے، کیونکہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کا مطمحِ نظر اور ساری تگ و دو صرف دنیا کے لیے ہے، انھوں نے آخرت کی زندگی سے بالکل آنکھیں بند کر رکھی ہیں، حالانکہ دنیا کی زندگی معمولی سا فائدہ ہے، (مَتَاعٌ کی تنوین تحقیر کے لیے ہے) جو بہت تھوڑی مدت کے لیے ہے۔ عیش و آرام سے گزرے تو حاصل کچھ نہیں، کیونکہ ناپائدار ہے اور تنگی ترشی سے گزرے تب بھی گزر ہی جائے گی۔ فکر تو آخرت کی زندگی کی کرنی چاہیے جو دائمی اور لازوال ہے، جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ وہاں دنیا کا یہ حقیر سامان کسی کام نہیں آئے گا، بلکہ صالح اعمال کام آئیں گے۔