سورة البقرة - آیت 34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (١) تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا (٢) اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہوگیا۔ (٣)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ آدم علیہ السلام کی پہلی فضیلت علم ظاہر فرمائی، اب یہ دوسرا شرف ہے کہ فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ صرف آداب بجا لانا یا تابع ہونا نہیں تھا، بلکہ زمین پر پیشانی رکھنا تھا، کیونکہ سجدے کا حقیقی معنی یہی ہے۔ یہ عبادت کا سجدہ نہیں تھا، کیونکہ غیر اللہ کی عبادت تو شرک ہے، جس کی اجازت کسی بھی امت میں نہیں تھی، پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو شرک کا حکم کیسے دے سکتا تھا، بلکہ یہ تعظیم کا سجدہ تھا، جو پہلی امتوں میں جائز تھا، ہماری امت میں حرام ہے، جیسا کہ بعض پہلی امتوں میں بہن سے نکاح جائز تھا، اب حرام ہے۔ عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ جب شام سے واپس آئے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’معاذ! یہ کیا ہے ؟‘‘ کہا، میں شام گیا تو میں نے انھیں دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور افسروں کو سجدہ کرتے ہیں ، میں نے دل میں چاہا کہ ہم آپ کے ساتھ اس طرح کریں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم یہ کام نہ کرو، کیونکہ اگر میں کسی کو حکم دینے والا ہوتا کہ وہ غیر اللہ کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘ [ ابن ماجہ، النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ : ۱۸۵۳]مگر افسوس کہ جاہل صوفی اور عوام جب پیروں کے پاس حاضری دیتے ہیں تو انھیں سجدہ کرتے ہیں اور وہ بھی اس پر خاموش رہ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ 2۔ابلیس فرشتہ نہیں تھا بلکہ جنوں سے تھا۔ (دیکھیے الکہف : ۵۰ ) یہاں فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کا یہ مطلب نہیں کہ ابلیس فرشتہ تھا، یا یہ کہ اسے حکم ہی نہ تھا، بلکہ یہاں بات مختصر بیان ہوئی ہے۔ سورۂ اعراف (۱۲) میں تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے علاوہ ابلیس کو خاص طور پر سجدے کا حکم دیا تھا، فرمایا : ﴿ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ﴾ [ الأعراف : ۱۲ ] ’’تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا، جب میں نے تجھے حکم دیا ؟‘‘ ۔ ابلیس کے انکار کا باعث اس کا کبر تھا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہو گا۔‘‘ [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ۹۱ ]