يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ
وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو (خوب) جانتا ہے۔
يَعْلَمُ خَآىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ ....: ’’ خَآىِٕنَةَ ‘‘ ’’خَانَ يَخُوْنُ‘‘ (ن) سے ’’فَاعِلَةٌ‘‘ کے وزن پر مصدر ہے، جیسا کہ ’’عَافِيَةٌ‘‘ ہے اور یہ اسم فاعل بھی ہو سکتا ہے۔ اسم فاعل ہونے کی صورت میں دراصل ’’اَلْأَعْيُنُ الْخَائِنَةُ‘‘ تھا، پھر صفت کو موصوف کی طرف مضاف کر دیا۔ معنی ’’ خیانت کرنے والی آنکھیں‘‘ ہو گا۔ مصدر ہونے کی صورت میں معنی واضح ہے اور وہ ہے ’’آنکھوں کی خیانت‘‘، یعنی اللہ تعالیٰ کفار کے حق میں سفارش قبول نہیں کرے گا۔ اگر کسی نے کسی شبہ کی بنا پر غلطی سے کر بھی دی تو مانی نہیں جائے گی، کیونکہ سفارش کرنے والے کو اس کے کفر کا پورا اندازہ نہیں ہو گا، جب کہ اللہ تعالیٰ نہ ایسے لوگوں کے حق میں سفارش کی اجازت دے گا نہ سفارش قبول کرے گا، کیونکہ وہ تو آدمی کے ظاہر اعمال ہی نہیں پوشیدہ معاملات کو بھی جانتا ہے، جن میں سے آنکھوں کی خیانت اور دلوں کی چھپائی ہوئی باتیں سب سے زیادہ مخفی چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں بھی جانتا ہے، تو وہ کسی کے دل کے کفر و شرک کا علم رکھتے ہوئے اس کے حق میں سفارش کیسے قبول کر سکتا ہے؟ انسان کے ظاہری اعضا کے اعمال میں سب سے پوشیدہ عمل آنکھ کے مختلف اعمال ہیں۔ مثلاً لوگوں سے چوری کسی کو دیکھنا جسے دیکھنا حرام ہے اور آنکھ کے اشارے سے ناجائز تعلق قائم کر لینا وغیرہ اور باطنی اعضا میں سے دل کے وہ اعمال ہیں جن کا آدمی کبھی اظہار نہیں کرتا،بلکہ انھیں چھپا کر رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے آنکھوں کی خیانت اور دل کے چھپائے ہوئے سب اعمال معلوم ہیں۔ قیامت کے دن ایسی تمام خیانتیں اور دلوں میں چھپائے ہوئے اعمال سب ظاہر کر دیے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ يَوْمَ تُبْلَى السَّرَآىِٕرُ ﴾ [ الطارق : ۹ ] ’’جس دن چھپی ہوئی باتوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔‘‘