سورة غافر - آیت 16

يَوْمَ هُم بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے (١) ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟ (٢)، فقط اللہ واحد و قہار کی۔ (٣)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ....: یعنی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہر وقت ظاہر ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں۔ اگرچہ دنیا میں کچھ لوگ اپنے خیال کے مطابق اپنے آپ کو کسی مکان یا غار وغیرہ میں یا کپڑوں میں چھپا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے چھپ گئے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَلَا اِنَّهُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ [ ھود : ۵ ] ’’سن لو! بلاشبہ وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں، تاکہ اس سے اچھی طرح چھپے رہیں، سن لو! جب وہ اپنے کپڑے اچھی طرح لپیٹ لیتے ہیں وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ بے شک وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ مگر قیامت کے دن زمین پر کوئی اوٹ نہیں رہے گی، جس میں وہ چھپ سکیں، بلکہ سب کے سب صاف ظاہر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا (105) فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا (106) لَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّ لَا اَمْتًا ﴾ [ طٰہٰ : ۱۰۵ تا ۱۰۷ ] ’’اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو تٌو کہہ دے میرا رب انھیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ پھر انھیں ایک چٹیل میدان بنا کرچھوڑے گا۔ جس میں تو نہ کوئی کجی دیکھے گا اور نہ کوئی ابھری جگہ۔‘‘ اس دن تو کسی کے جسم پر کوئی کپڑا بھی نہیں ہو گا، ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّكُمْ مُّلاَقُو اللّٰهِ حُفَاةً عُرَاةً مُشَاةً غُرْلاً )) [ بخاري، الرقاق، باب کیف الحشر : ۶۵۲۴ ]’’تم اللہ تعالیٰ سے ننگے پاؤں، ننگے بدن، پیدل چلنے والے، بغیر ختنہ کیے ہوئے ملو گے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ ابراہیم (۲۱، ۴۸) اور سورۂ حاقہ (۱۳ تا ۱۸)۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ : یعنی دنیا میں بہت سے لوگ اپنی بادشاہی اور بڑائی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اور بہت سے لوگ ان کی بادشاہی اور کبریائی مانتے رہے، مگر اب بتاؤ کہ آج ساری بادشاہی کا مالک کون ہے ؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا : (( يَقْبِضُ اللّٰهُ الْأَرْضَ، وَيَطْوِي السَّمٰوَاتِ بِيَمِيْنِهِ، ثُمَّ يَقُوْلُ أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ مُلُوْكُ الْأَرْضِ؟ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿والأرض جمیعًا قبضتہ....﴾ : ۴۸۱۲ ] ’’اللہ تعالیٰ زمین کو مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا، میں ہی بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟‘‘ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ: جب کوئی جواب دینے والا نہیں ہو گا تو اللہ تعالیٰ خود ہی یہ بات فرمائے گا، جیسا کہ پچھلے فائدے میں حدیث گزری۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ آیت میں اس وقت کا ذکر ہے جب سب لوگ میدان حشر میں صاف ظاہر ہوں گے، ان کی کوئی چیز اللہ پر چھپی نہ ہو گی، اس وقت اللہ تعالیٰ پوچھے گا : ﴿ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ﴾ ’’ آج کس کی بادشاہی ہے؟‘‘ ظاہر ہے اس وقت وہ سب لوگ جو وہاں جمع ہوں گے وہی یہ جواب دیں گے۔ نیک لوگ خوشی سے اور برے لوگ یہ بات بادل ناخواستہ کہیں گے، کیوں کہ کسی کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں ہو گا۔ رہی حدیث، تو وہ اس موقع کی بات ہے جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹے گا اور یہ بات فرمائے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ اکیلے کی بادشاہت کا اظہار و اقرار متعدد بار ہو گا۔