رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ
بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔
1۔ رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ:’’ الدَّرَجٰتِ ‘‘ ’’ دَرَجَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی مرتبہ بھی ہے اور سیڑھی بھی۔ ’’ رَفِيْعُ ‘‘ ’’رَفَعَ يَرْفَعُ‘‘ ( ف) سے ہے، لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی۔ لازم سے ہو تو معنی ’’ مُرْتَفِعُ الدَّرَجَاتِ‘‘ ہے، اس کا اصل ’’رَفِيْعٌ دَرَجَاتُهُ‘‘ ہے۔ یعنی وہ بہت بلند مراتب اور سیڑھیوں والا اور عرش والا ہے، اس کی ذات مخلوق سے جدا عرش کے اوپر ہے۔ فرشتوں کو عرش تک پہنچنے کے لیے بہت سی سیڑھیوں پر چڑھنا پڑتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ سَاَلَ سَآىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (1) لِّلْكٰفِرِيْنَ لَيْسَ لَهٗ دَافِعٌ (2) مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ (3) تَعْرُجُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ ﴾ [ المعارج : ۱ تا ۴ ] ’’ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کے متعلق سوال کیا جو واقع ہونے والا ہے۔ کافروں پر، اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔ اللہ کی طرف سے، جو سیڑھیوں والا ہے۔ فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں، (وہ عذاب ) ایک ایسے دن میں(ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے۔‘‘ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ معارج کی انھی آیات کی تفسیر۔ ’’ رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ‘‘ میں ’’ رَفِيْعُ ‘‘ کو اگر متعدی مانا جائے تو معنی ہو گا، وہ درجوں کو بہت بلند کرنے والا ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ﴾ [ یوسف : ۷۶ ] ’’ہم جسے چاہتے ہیں درجوں میں بلند کر دیتے ہیں۔‘‘ 2۔ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ:’’ الرُّوْحَ ‘‘ سے مراد یہاں ’’وحی ‘‘ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ اَنْ اَنْذِرُوْا اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ﴾ [ النحل : ۲ ] ’’وہ فرشتوں کو وحی کے ساتھ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے کہ خبردار کر دو کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو مجھ سے ڈرو۔‘‘ مزید تشریح سورۂ نحل کی اس آیت کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 3۔ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ: ’’ التَّلَاقِ‘‘ ’’لَقِيَ يَلْقٰي‘‘(ع) سے باب تفاعل کا مصدر ہے، اصل میں ’’تَلَاقِيْ‘‘ ہے، ایک دوسرے سے ملنا۔ یعنی اللہ تعالیٰ وحی اس لیے نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے ڈرائے۔ مراد قیامت کا دن ہے، جس میں جانیں جسموں کے ساتھ ملیں گی اور سب لوگ ایک دوسرے سے ملیں گے۔ ہر عمل کرنے والا اپنے عمل کی جزا سے ملے گا، ظالم و مظلوم ملیں گے، آسمان والے فرشتے زمین کے انسانوں سے ملیں گے اور مخلوق خالق سے ملے گی، جو ان کا حساب لے گا۔