هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا ۚ وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَن يُنِيبُ
وہی ہے جو تمہیں اپنی (نشانیاں) دکھلاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے روزی اتارتا ہے (١) نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتے ہیں۔ (٢)
1۔ هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ: یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمھیں اپنے وجود اور اپنی وحدانیت کی بے شمار نشانیاں دکھاتا ہے، جو اس وقت بھی موجود تھیں جب تمھارے بنائے ہوئے معبودوں کا وجود تک نہ تھا۔ اب بھی کوئی داتا یا دستگیر یہ دعویٰ نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی حصہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بہت سی نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے، وہ نشانیاں آفاق ( کائنات) میں بھی ہیں اور خود انسان کی ذات میں بھی۔ دیکھیے سورۂ یونس (۶)، حم السجدہ (۵۳)، روم (۲۰ تا ۲۷)، بقرہ (۱۶۴)، جاثیہ (۳۵) اور سورۂ مومن (۷۹، ۸۰)۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے مراد انبیاء علیھم السلام کو عطا کردہ معجزے بھی ہیں اور اس کی قدرت پر دلالت کرنے والے عجیب و غریب واقعات و حوادث بھی، جو وقتاً فوقتاً انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے متعلق فرمایا : ﴿وَ لَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَ اَبٰى ﴾ [طٰہٰ : ۵۶ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اس (فرعون) کو اپنی تمام آیات (نشانیاں) دکھائیں، پس اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا۔‘‘ 2۔ وَ يُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ رِزْقًا: یہ کہنے کے بعد کہ وہی ہے جو تمھیں اپنی آیات (نشانیاں) دکھاتا ہے، اپنی ایک عظیم نشانی کا ذکر فرمایا۔ ’’ رِزْقًا ‘‘ سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ وہ انسان کے رزق کا سبب ہے۔ تمام نباتات اسی سے اگتی ہیں، جنھیں کھا کر وہ تمام جانور پلتے ہیں جو انسان کی خوراک ہیں یا اس کے کام آتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۲)، جاثیہ (۵)، ابراہیم (۳۲)، ق (۹ تا ۱۱) اور سورۂ نحل (۱۰، ۱۱)۔ 3۔ وَ مَا يَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنْ يُّنِيْبُ: یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کی نشانیاں تو بے شمار ہیں، مگر ان سے نصیحت رجوع کرنے والے ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر آدمی اپنی روزی ہی کو دیکھ لے کہ اسے مہیا کرنے میں قدرت کی کون کون سی چیزیں مصروف عمل ہیں اور کس طرح ایک دوسرے کی موافقت کے ساتھ کام کر رہی ہیں تو کبھی شرک کی جرأت نہ کرے، کیونکہ ان تمام چیزوں کو بنانے اور چلانے والا ایک ہے۔ اگر وہ ایک نہ ہو تو کائنات ایک لمحہ کے لیے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ مگر جو شخص اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ لے اور اس کی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہ کرے، وہ بڑی سے بڑی نشانی دیکھ کر بھی کوئی نصیحت حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کی آنکھوں پر تقلید آباء، تعصب اور عناد کے پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔