قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ
وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دو بار مارا اور دوہی بار جلایا (١) اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں (٢) تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے (٣)
قَالُوْا رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ: جہنمی لوگ نہایت عاجزی اور ادب کے ساتھ’’ رَبَّنَا ‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو دفعہ موت دی اور دو دفعہ زندگی عطا کی، اب ہم اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے تیرے ساتھ شرک کر کے اور قیامت کا انکار کر کے سخت غلطی کی، تو کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ اب جب کہ ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا ہے، ہمارا عذر قبول کر لیا جائے اور ہمیں دوبارہ عمل کرنے کے لیے پہلی زندگی کی طرف لوٹا دیا جائے؟ یہ بات وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کہیں گے۔ کفار کی اس درخواست اور اس کے جواب کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۲۷)، سجدہ (۱۲)، فاطر (۳۷) اور سورۂ نساء (۱۸) دو موتوں اور دو زندگیوں کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۲۸) :﴿كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ﴾ کی تفسیر۔