إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ
بیشک جنہوں نے کفر کیا انہیں آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے (١)
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنَادَوْنَ....: ’’مَقْتٌ‘‘ شدید غصے اور ناراضی کو کہتے ہیں۔ ’’ يُنَادَوْنَ ‘‘ ’’انھیں پکار کر کہا جائے گا‘‘ انھیں کون پکارے گا ؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا۔ ظاہر ہے انھیں یہ کہنے والا اللہ تعالیٰ خود ہو سکتا ہے یا جہنم پر مقرر فرشتے ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلی آیات میں ایمان والوں کے ساتھ فرشتوں کے سلوک کا ذکر گزرا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کے ساتھ ایمان والوں کے لیے استغفار اور وہ دعائیں کرتے ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا ہے۔ اب ایمان والوں کے بعد کفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے سلوک کا ذکر ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے اعمال دیکھیں گے تو اپنے آپ پر شدید غصے ہوں گے، اس وقت فرشتے انھیں پکار کر کہیں گے : ﴿ لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ﴾ کہ اب تمھیں جہنم میں جلتے ہوئے اپنے آپ پر جتنا شدید غصہ آ رہا ہے، یقین جانو! دنیا میں جب تمھیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے بھی شدید غصہ آتا تھا۔