وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کیلیے چلے جاؤ۔ (١)
1۔ وَ سِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ....: کفار کے انجام سے ڈرانے کے بعد متقین کے حسن انجام کی بشارت دی، کیونکہ قرآن مجید میں یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا﴾ [ مریم : ۹۷ ] ’’تاکہ تو اس کے ساتھ متقی لوگوں کو خوش خبری دے اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو ڈرائے جو سخت جھگڑا لو ہیں۔‘‘ 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ’’سَاقَ يَسُوْقُ‘‘ میں سختی کے ساتھ ہانکنے کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسا کہ اوپر کی آیات میں کفار کو سختی سے ہانک کر جہنم کی طرف لے جانے کا ذکر ہے، تو یہاں متقین کو جنت کی طرف لے جانے کے لیے یہ لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ پہلے ’’سِيْقَ‘‘ کے ساتھ مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے، ورنہ یہاں اس لفظ سے مراد سختی سے لے جانا یا ہانکنا نہیں۔ اسے تجرید کہتے ہیں، یہاں اس سے مراد صرف لے جانا ہے۔ مقصد دونوں کو لے جانے کا باہمی فرق واضح کرنا ہے کہ اگرچہ دونوں کو لے جایا جائے گا، مگر کفار کو لے جانے میں سختی، دھکے اور اہانت و تذلیل ہو گی، جب کہ مومنوں کو اکرام کے ساتھ لے جایا جائے گا، جس کی دلیل بعد میں آنے والے الفاظ ’’ وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا ‘‘ اور ’’ وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ‘‘ ہیں۔ 3۔ زُمَرًا: یہ جماعتیں درجات کے لحاظ سے ہوں گی، چنانچہ سب سے بلند درجات والے پہلے داخل ہوں گے۔ ( دیکھیے سورۂ واقعہ : ۱۰) مثلاً انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، اسی طرح درجہ بدرجہ جماعتیں جنت میں داخل ہوں گی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُوْرَتُهُمْ عَلٰی صُوْرَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، لَا يَبْصُقُوْنَ فِيْهَا وَ لاَ يَمْتَخِطُوْنَ وَ لَا يَتَغَوَّطُوْنَ، آنِيَتُهُمْ فِيْهَا الذَّهَبُ، أَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَ مَجَامِرُهُمُ الْأُلُوَّةُ، وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، وَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ، يُرٰی مُخُّ سُوْقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ، مِنَ الْحُسْنِ، لَا اخْتِلاَفَ بَيْنَهُمْ وَ لَا تَبَاغُضَ، قُلُوْبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ، يُسَبِّحُوْنَ اللّٰهَ بُكْرَةً وَ عَشِيًّا )) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۴۵ ] ’’پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گے، وہ نہ اس میں تھوکیں گے، نہ رینٹ پھینکیں گے اور نہ پاخانہ کریں گے۔ اس میں ان کے برتن سونے کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی اور ان کی انگیٹھیاں ’’اُلُوَّه‘‘ (جل کر خوشبو دینے والی ایک لکڑی) کی ہوں گی، ان کا پسینہ کستوری ہو گا، ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں وہ ہوں گی جن کی پنڈلیوں کا مغز حسن کی وجہ سے گوشت کے پیچھے سے دکھائی دے گا، ان میں نہ کوئی اختلاف ہوگا، نہ ایک دوسرے سے کوئی بغض ہو گا، ان کے دل ایک دل ہوں گے، صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے۔‘‘ صحیح مسلم میں اسی حدیث میں ہے : (( أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِيْ عَلٰی صُوْرَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ عَلٰی أَشَدِّ نَجْمٍ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً ثُمَّ هُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ مَنَازِلُ )) [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمہا و أھلھا، باب أول زمرۃ تدخل الجنۃ....: ۱۶؍۲۸۳۴ ] ’’میری امت کی پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہو گی ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح ہوں گے، پھر جو ان کے بعد جائیں گے وہ آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، پھر اس کے بعد ان کے مختلف مراتب ہوں گے۔‘‘ 4۔ جنتیوں کے گروہوں کی ایک تقسیم مختلف صالح اعمال میں خصوصیت کی بنا پر ہو گی، جن کی بنا پر انھیں مختلف دروازوں سے بلایا جائے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ يَعْنِی الْجَنَّةَ يَا عَبْدَ اللّٰهِ! هٰذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّيَامِ، وَ بَابِ الرَّيَّانِ، فَقَالَ أَبُوْ بَكْرٍ مَا عَلٰی هٰذَا الَّذِيْ يُدْعٰی مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُوْرَةٍ، وَ قَالَ هَلْ يُدْعٰی مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ نَعَمْ، وَ أَرْجُوْ أَنْ تَكُوْنَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ! )) [بخاري، باب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب : ۳۶۶۶ ] ’’جو شخص کسی چیز کا ایک جوڑا اللہ کے راستے میں خرچ کرے گا اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا، اے اللہ کے بندے! یہ خیر ہے۔ تو جو شخص نماز والوں سے ہو گا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو جہاد والوں سے ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو صدقہ والوں سے ہو گا اسے صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزے والوں سے ہو گا اسے روزے کے دروازے اور باب الریان (سیرابی کے دروازے) سے بلایا جائے گا۔‘‘ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’جس شخص کو ان دروازوں سے بلایا جائے اسے کوئی ضرورت تو نہیں، مگر یا رسول اللہ! کیا کسی کو ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں! اور میں امید کرتا ہوں کہ اے ابوبکر! تم بھی ان میں سے ہو گے۔‘‘ 5۔ حَتّٰى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا: یہاں’’فُتِحَتْ‘‘سے پہلے ’’واؤ‘‘لانے کا مطلب یہ ہے کہ متقین کی آمد پر جنت کے دروازے پہلے ہی کھول دیے گئے ہوں گے، جیسے کسی معظم و مکرم مہمان کے انتظار میں پہلے ہی دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ اسی کو دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ فرمایا : ﴿ جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْاَبْوَابُ﴾ [ صٓ : ۵۰ ] ’’ہمیشہ رہنے کے باغات، اس حال میں کہ ان کے لیے دروازے پورے کھولے ہوئے ہوں گے۔‘‘ جنت کے آٹھ دروازے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فِي الْجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ، فِيْهَا بَابٌ يُسَمَّی الرَّيَّانَ لاَ يَدْخُلُهُ إِلاَّ الصَّائِمُوْنَ )) [ بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ أبواب الجنۃ : ۳۲۵۷ ] ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ایک دروازے کا نام ریّان ہے، اس میں سے صرف خاص روزے دار داخل ہوں گے۔‘‘ 6۔ وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ....: کفار کے برعکس متقین کی جنت کے پاس آمد پر اس کے دربان فرشتے نہایت محبت کے ساتھ ان کا اکرام اور عزت افزائی کرتے ہوئے انھیں تین باتیں کہیں گے، پہلی یہ کہ تم پر سلام ہے، یعنی اب تم ہر تکلیف ، غم اور خوف سے سلامت رہو گے۔ دوسری بات ’’ طِبْتُمْ ‘‘ ہے، اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ تم اس سے پہلے دنیا میں کفر و شرک سے پاک رہے، سو اس میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ رہنے والے، دوسرا یہ کہ اب تم ہر گناہ اور بری بات سے پاک ہو گئے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنَ النَّارِ، فَيُحْبَسُوْنَ عَلٰی قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ، فَيُقْتَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ، مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتّٰي إِذَا هُذِّبُوْا وَ نُقُّوْا أُذِنَ لَهُمْ فِيْ دُخُوْلِ الْجَنَّةِ )) [ بخاري، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ : ۶۵۳۵ ] ’’مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انھیں جنت اور آگ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر انھیں ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا بدلا دلایا جائے گا جو دنیا میں آپس میں ہوئیں، پھر جب خوب پاک صاف ہو جائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔‘‘ تیسری بات یہ کہیں گے کہ چونکہ تم پاک ہو چکے، سو اب تم جنت میں ہمیشہ رہنے والے بن کر داخل ہو جاؤ۔ جنت میں داخلہ ہی بہت بڑی بشارت ہے، اس کے ساتھ ہمیشگی کی بشارت کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ [ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ] 7۔ کفار کے متعلق جو فرمایا : ’’ اِذَا جَآءُوْهَا ‘‘ (جب وہ اس کے پاس آئیں گے) اس شرط کی جزا ’’ وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا ‘‘ (تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے) ہے، مگر متقین کے متعلق تینوں جملے شرط کا حصہ ہیں ’’ اِذَا جَآءُوْهَا ‘‘ ، ’’ وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا ‘‘ اور ’’ وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ‘‘ ان کی جزا حذف کر دی گئی ہے، کیونکہ اس دنیا میں انسانی فکر اس کی بلندی تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ گویا عبارت یوں ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے، اس حال میں کہ اس کے دروازے کھول دیے گئے ہوں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہو جاؤ، پاکیزہ رہنے والے، تو مت پوچھو کہ وہ کس قدر خوش ہوں گے، کیونکہ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کتنی بڑی نعمت حاصل کریں گے۔