أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
یا عذاب کو دیکھ کر کہے کاش! کہ کسی طرح میرا لوٹ جانا ہوجاتا تو میں بھی نیکوکاروں میں ہوجاتا۔
اَوْ تَقُوْلَ حِيْنَ تَرَى الْعَذَابَ....: پچھلی آیت کے ضمن میں کفار کے اللہ تعالیٰ پر اس جھوٹ کا ذکر تھا کہ اس نے انھیں ہدایت نہیں دی، اس آیت کے ضمن میں ان کے ایک اور جھوٹ کا ذکر ہے کہ اس نے انھیں نیک بننے کے لیے وقت نہیں دیا، اگر انھیں دوبارہ بھیجا جائے تو وہ نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ چنانچہ وہ عذاب دیکھ کر دنیا میں ایک دفعہ واپس جانے کی ناکام تمنا کریں گے۔ (دیکھیے انعام : ۲۷، ۲۸) طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے وہ بات جو بندے کہنے والے ہیں، ان کے کہنے سے پہلے بتا دی ہے اور (دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی صورت میں) وہ جو کچھ کرنے والے ہیں ان کے کرنے سے پہلے بتا دیا ہے اور فرمایا : ﴿ وَ لَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ﴾ [ فاطر : ۱۴ ] ’’اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘ یعنی وہ کہیں گے ’’يٰحَسْرَتٰى عَلٰى مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْۢبِ اللّٰهِ ‘‘ یا یہ کہیں گے ’’ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ‘‘ یا کہیں گے ’’ لَوْ اَنَّ لِيْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ‘‘ ’’ الْمُحْسِنِيْنَ ‘‘ سے مراد ’’اَلْمُهْتَدِيْنَ‘‘ یعنی ہدایت یافتہ لوگ ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا کہ اگر انھیں دوبارہ بھیجا گیا تو پھر بھی ہدایت نہیں پا سکیں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۲۸ ] ’’اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ نُقَلِّبُ اَفْـِٕدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ [الأنعام : ۱۱۰ ] ’’اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے، جیسے وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے۔‘‘ یعنی جس طرح وہ پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے، اگر انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تب بھی ان کے اور ہدایت کے درمیان رکاوٹ حائل رہے گی، جیسا کہ پہلی مرتبہ حائل رہی جب وہ دنیا میں تھے۔‘‘