أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور تنگ (بھی) ایمان لانے والوں کے لئے اس میں (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں۔ (١)
1۔ اَوَ لَمْ يَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ ....: پچھلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ موجودہ اور پہلے کفار کا دھوکے میں مبتلا ہونے کا باعث انھیں عطا ہونے والا مال اور دوسری نعمتیں ہیں۔ انھوں نے اپنی جہالت سے یہ سمجھا کہ مال و دولت کی کثرت ان کی اپنی مہارت و قابلیت اور علم و عقل کا نتیجہ ہے اور یہ ان کے حق پر ہونے کی اور اللہ تعالیٰ کے ان پر خوش ہونے کی دلیل ہے۔ فرمایا، نہ رزق کی کشادگی کسی شخص کے علم و عقل یا مہار ت پر موقوف ہے نہ اس کا تنگ ہونا کسی کے علم و عقل یا مہارت کی کمی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی زیادتی یا کمی اللہ تعالیٰ کے خوش یا ناخوش ہونے کی دلیل ہے، بلکہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر موقوف ہے، وہ جس کا رزق جب چاہتا ہے فراخ کر دیتا ہے، خواہ وہ نیک ہو یا بد اور جب چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، نیک ہو یا بد اور اس کی حکمت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اگر رزق علم و عقل اور مہارت و قابلیت پر موقوف ہوتا تو کوئی عالم و عاقل رزق کی تنگی میں مبتلا نہ ہوتا اور نہ ہی کسی جاہل یا کم عقل کو رزق یا دوسری نعمتوں کی فراوانی حاصل ہوتی۔ 2۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : یعنی رزق کی فراخی اور تنگی میں ایمان والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ اس سے وہی فائدہ اٹھاتے اور عبرت حاصل کرتے ہیں، کیونکہ وہی ایمان رکھتے ہیں کہ رزق فراخ کرنے والا اور اسے تنگ کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہ یہ فیصلہ کسی کے نیک یا بد ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی حکمت و رحمت کے تحت کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے بندوں کا حال بہتر جانتا ہے۔ کبھی وہ اپنے بندے کا رزق تنگ کر دیتا ہے کہ اگر اس کا رزق فراخ کر دیا تو یہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے گا، کبھی اس کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ آیا وہ اس فقر و فاقہ میں صبر کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کا شکوہ کرتا اور اسے کوسنا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی وہ دل جوئی اور انعام کے طور پر یا حجت تمام کرنے کے لیے رزق فراخ کر دیتا ہے۔