سورة الزمر - آیت 21

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے (١) پھر اسی کے ذریعے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہوجاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزہ ریزہ کردیتا ہے (٢) اس میں عقلمندوں کیلئے بہت زیادہ نصیحت ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ....: ’’ يَنَابِيْعَ ‘‘ ’’يَنْبُوْعٌ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی چشمہ بھی ہے اور بہت پانی والا نالہ بھی۔ (قاموس) ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ بتا رہے ہیں کہ زمین میں موجود پانی کا اصل آسمان ہی سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا﴾ [ الفرقان : ۴۸ ] ’’اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا۔‘‘ آسمان سے اترنے کے بعد یہ پانی زمین کی تہوں میں چلا جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ضرورت کے مطابق جس طرح چاہتا ہے چلاتا ہے اور چھوٹے یا بڑے چشموں کی صورت میں باہر نکالتا ہے، جس سے ندی نالے اور دریا بنتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ﴾ ’’پھر اسے چشموں کی صورت میں زمین میں چلایا۔‘‘ 2۔ آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ آگ کے عذاب اور ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کے ذکر کے ساتھ ہی دنیا کی زندگی کی زیب و زینت اور خوش حالی کے عارضی اور نا پائیدار ہونے کا ذکر فرمایا۔ آسمان سے اترنے والے پانی کے ساتھ پیدا ہونے والی کھیتی کا جو حال اس آیت میں بیان ہوا ہے یہی حال انسان کا ہے، وہ پہلے بچہ ہوتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، پھر پختہ ہو کر بوڑھا ہو جاتا ہے، آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز کا یہی حال ہے، اس کی سب زینتیں عارضی اور چند روزہ ہیں، اس کے ہر کمال کو زوال ہے اور اس کی ہر چیز کو آخر کار فنا ہونا ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۲۴)، کہف (۴۵) اور حدید (۲۰)۔ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ : مختلف رنگوں سے مراد مختلف رنگ بھی ہیں، مثلاً سبز، سرخ، زرد وغیرہ اور مختلف قسمیں بھی، مثلاً گندم، جَو اور چنے وغیرہ۔ یہ دلیل ہے کہ ایک ہی پانی اور ایک ہی زمین سے مختلف رنگوں اور ذائقوں کی کھیتیاں پیدا کرنا اندھے بہرے مادے کا کام نہیں، بلکہ ایک قادر و مختار ہستی کا کام ہے۔ دیکھیے سورۂ رعد (۴)۔ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا : ’’هَاجَ يَهِيْجُ هَيْجًا وَ هِيَاجًا وَ هَيْجَانًا الشَّيْءُ‘‘ کسی چیز کا ابھرنا، حرکت کرنا۔ ’’هَاجَ النَّبْتُ‘‘ کھیتی کا خشک ہونا۔ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ حُطَامًا :’’ حَطِمَ (س) الشَّيْءُ حَطَمًا‘‘ کسی چیز کا ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جانا۔ ’’ حُطَامًا ‘‘ ’’فُتَاتًا‘‘ کا ہم وزن اور ہم معنی ہے، ریزہ ریزہ شدہ، چورا۔ اس آیت میں ’’ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ حُطَامًا ‘‘ (پھر وہ اسے چورا بنا دیتا ہے) فرمایا، جب کہ سورۂ حدید میں فرمایا : ﴿ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ﴾ [ الحدید : ۲۰ ] ’’پھر وہ چورا بن جاتی ہے۔‘‘ یہ فرق اس لیے ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت و صنعت کی بات ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اسے چشموں کی صورت میں زمین میں چلایا، پھر یہاں مختلف رنگوں کی کھیتی اُگانے اور اس کے پکنے کا ذکر ہے، اس لیے فرمایا، پھر وہ اسے چورا بنا دیتا ہے اور سورۂ حدید میں ’’ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ‘‘ (دنیا کی زندگی) سے بات کا آغاز ہوا ہے، اس لیے آخر میں فرمایا، پھر وہ چورا بن جاتی ہے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى ....: ’’ لَذِكْرٰى ‘‘ میں تنکیر تعظیم کے لیے ہے، یعنی اس میں عقلوں والوں کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے کہ ان کی زندگی بھی اس کھیتی کی طرح نا پائیدار اور فنا ہونے والی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا انھیں دوبارہ اسی طرح زندہ کر ے گا جس طرح وہ مردہ زمین کو پانی کے ذریعے سے زندہ کر دیتا ہے۔