الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ
جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو (١) اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی اور یہی عقلمند بھی ہیں (٢)
1۔ الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ : اس جملے کی تین تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ میرے ان بندوں کو بشارت دے جو ہر بات سنتے ہیں، مگر پیروی صرف قرآن و سنت کی کرتے ہیں، کیونکہ سب باتوں سے اچھی بات اللہ کی نازل کردہ بات ہے، جیسا کہ آگے آیت (۲۳) میں آ رہا ہے : ﴿ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ﴾ ’’اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَحْسَنُ الْكَلاَمِ كَلاَمُ اللّٰهِ وَ أَحْسَنُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ )) [ نسائي، السھو، باب نوع من الذکر بعد التشھد : ۱۳۱۲، عن جابر رضی اللّٰہ عنہ ] ’’ہر کلام سے اچھا اللہ کا کلام ہے اور ہر طریقے سے اچھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔‘‘ دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ قرآن سنتے ہیں جس میں کچھ احکام حسن (اچھے) ہیں اور کچھ اَحسن (زیادہ اچھے) ہیں، پھر وہ احسن کی پیروی کرتے ہیں۔ مثلاً قصاص لینا یا معاف کر دینا، زیادتی پر انتقام لینا یا صبر کرنا، قرض وصول کرنے میں مہلت دینا یا چھوڑ دینا، اگرچہ تینوں معاملات میں مذکور دونوں کام اچھے ہیں، مگر دوسرا کام پہلے سے زیادہ اچھا ہے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ وہ اچھی بری سبھی باتیں سنتے ہیں، مگر کرتے وہی بات یا وہی کام ہیں جو سب سے اچھا ہو۔ ابن عطیہ نے ’’المحرر الوجیز‘‘ میں فرمایا : ’’هُوَ عَامٌّ فِيْ جَمِيْعِ الْأَقْوَالِ وَالْقَصْدُ الثَّنَاءُ عَلٰی هٰؤُلَاءِ بِبَصَائِرَ وَ نَظْرٍ سَدِيْدٍ يُفَرِّقُوْنَ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ وَ بَيْنَ الصَّوَابِ وَالْخَطَإِ فَيَتَّبِعُوْنَ الْأَحْسَنَ مِنْ ذٰلِكَ‘‘ ’’یہ تمام اقوال کے لیے عام ہے، مقصد ان لوگوں کی بصیرتوں اور درست غور و فکر کی تعریف ہے جس کے ساتھ وہ حق و باطل اور درست اور خطا کے درمیان فیصلہ کرتے ہیں، پھر اس میں سے احسن کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ الفاظ عام ہونے کی وجہ سے تیسری تفسیر زیادہ ظاہر ہے۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ....: ہر قسم کے اقوال سن کر سب سے اچھی بات کی جستجو کر کے اس پر عمل کرنے والوں ہی کو اللہ تعالیٰ نے وہ لوگ قرار دیا جنھیں اس نے ہدایت دی اور صرف انھی کو عقلوں والے قرار دیا۔ 3۔ اس آیت سے تقلید کی واضح تردید ہو رہی ہے، کیونکہ تقلید کا معنی ہے : ’’أَخْذُ قَوْلِ الْغَيْرِ بِلَا دَلِيْلٍ‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات بلا دلیل لے لینا۔ مقلد اپنے بنائے ہوئے پیشوا کے علاوہ اوّل تو کسی کی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا، اگر سن بھی لے تو اپنے پیشوا کی بات پر جما رہتا ہے۔ دوسری بات خواہ قرآن مجید کی آیت ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہو اور خواہ وہ کتنی ہی اچھی ہو، نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے نہ مانتا ہے۔ جب کہ مومن ہر بات غور سے سن کر اس کے حسن و قبح کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور احسن پر عمل کرتا ہے۔ جہنم میں جانے والے تمنا کریں گے کہ کاش! وہ دنیا میں سنتے یا سمجھتے ہوتے، مگر اس وقت جب ان کی تمنا پوری ہونے کی کوئی صورت نہ ہو گی، فرمایا : ﴿ وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ﴾ [ الملک : ۱۰ ] ’’اور وہ کہیں گے، اگر ہم سنتے ہوتے یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔‘‘ ایسے لوگ نہ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور نہ ان کا شمار ’’اولوا الالباب‘‘ میں ہو سکتا ہے۔