قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو (١) جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے (٢) اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
1۔ قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ: سورت کے شروع سے توحید کا بیان آرہا ہے، اب بڑی محبت کے ساتھ ایمان والوں کو ’’میرے بندو‘‘ کہہ کر انھیں یہ پیغام دینے کا حکم دیا کہ صرف زبان سے توحید کا اقرار کافی نہیں، بلکہ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ’’تَقْوٰي‘‘ ’’وَقٰي يَقِيْ وِقَايَةً‘‘ کا مصدر ہے، اس کا لفظی معنی ’’بچنا‘‘ ہے، مراد ایسے تمام کام چھوڑ دینا ہے جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر ہے اور ایسے تمام کام کرنا جن کے چھوڑنے سے اس کے عذاب کا ڈر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرو۔ 2۔ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ: ’’ حَسَنَةٌ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔’’ فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا ‘‘ کا تعلق’’ اَحْسَنُوْا ‘‘ کے ساتھ ہے، یعنی جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کیے ان کے لیے عظیم بھلائی ہے۔ اس بھلائی سے مراد دنیا کی بھلائی بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر دعا یہ تھی : ((اَللّٰهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ )) [ بخاري، الدعوات، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ربنا ....: ۶۳۸۹ ] ’’اے اللہ! ہمیں اس دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچانا۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۰۱) کی تفسیر۔ دنیا اور آخرت دونوں میں اس بھلائی کی تفصیل کے لیے سورۂ نحل (۹۷) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ 3۔ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ: یہ ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اگر کسی جگہ تم اللہ کے تقویٰ پر کار بند نہیں رہ سکتے اور اللہ کے دین پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے تو اللہ کی زمین وسیع ہے، کسی دوسری جگہ چلے جاؤ، جہاں آزادی سے اللہ کے احکام پر عمل کر سکو۔ اس جملے کی مفصل تفسیر کے لیے سورۂ نساء کی آیات (۹۷ تا ۱۰۰) اور ان کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ 4۔ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ: صبر کا لفظی معنی باندھنا ہے۔ اہلِ علم نے صبر کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی پر صبر، اس کی منع کر دہ چیزوں سے اجتناب پر صبر اور پیش آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں پر صبر۔ صابر وہ ہے جس کی خصلت ہی صبر ہو۔ فرمایا، جن لوگوں کی خصلت صبر ہے، صرف یہی لوگ ہیں جنھیں ان کا اجر کسی حساب کے بغیر دیا جائے گا۔ اس میں ہجرت کے دوران پیش آنے والی تکالیف پر صبر کی تلقین ہے اور اس پر بے حساب اجر کی بشارت ہے۔ بغیر حساب اجر سے مراد جنت ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ دنیا کی ہر نعمت خواہ کتنی ہو ختم ہونے والی ہے اور ختم ہونے والی ہر چیز کا حساب ہو سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ [ المؤمن : ۴۰ ] ’’اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بے حساب رزق دیے جائیں گے۔‘‘