لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اولاد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا۔ (لیکن) وہ تو پاک ہے، وہ (١) وہی اللہ تعالیٰ ہے یگانہ اور قوت والا۔
1۔ لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا ....: اس آیت میں مشرکین کے ایک اور شرک یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کی نفی فرمائی ہے، کیونکہ ان میں سے بعض عزیر علیہ السلام کو اور بعض عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے اور بعض فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ظاہر ہے اولاد دو طرح کی ہو سکتی ہے، ایک حقیقی اولاد۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے عقلاً محال ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ﴾ [ الأنعام : ۱۰۱ ] ’’اس کی اولاد کیسے ہو گی، جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ کی کوئی بیوی نہیں اور بیوی کے بغیر اولاد محال ہے، پھر ہر چیز اس کی مخلوق ہے اور اولاد والد کی مخلوق نہیں بلکہ اس کی ہم جنس ہوتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو اپنی منہ بولی اولاد بنا لینا ہے۔ فرمایا، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی اولاد بنانا چاہتا تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا اس کے لیے چن لیتا، نہ کہ یہ معاملہ ان مشرکوں اور گمراہ یہود و نصاریٰ پر چھوڑ دیتا، مگر نہ اس نے یہ چاہا اور نہ کسی کو اولاد بنایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے یہ ارادہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہاں ’’ لَوْ ‘‘ کا لفظ تعلیق بالمحال کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿لَوْ اَرَدْنَا اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۱۷ ] ’’اگر ہم چاہتے کہ کوئی کھیل بنائیں تو یقیناً اسے اپنے پاس سے بنالیتے، اگر ہم کرنے والے ہوتے۔‘‘ 2۔ سُبْحٰنَهٗ : یہ اللہ تعالیٰ کے کسی کو اولاد نہ بنانے کی دلیل ہے۔ دوسری جگہ یہ دلیل تفصیل سے بیان فرمائی ہے : ﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۶ ] ’’اور انھوں نے کہا اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے، وہ پاک ہے، بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ اس آیت میں تین طرح سے اللہ تعالیٰ کے کسی کو اولاد بنانے کا رد ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۱۶)۔ 3۔ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ : اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد بنانے کی نفی کرتے ہوئے پہلے اپنا ذاتی نام ’’ اللّٰهُ ‘‘ ذکر فرمایا، پھر اپنی صفت ’’ الْوَاحِدُ ‘‘ بیان فرمائی کہ جس کی تم اولاد بتا رہے ہو وہ انسان یا کوئی مخلوق نہیں بلکہ اللہ ہے، جو اصل میں ’’اَلْاِلٰهُ‘‘ ہے، یعنی وہ معبود ہے، باقی سب عبد ہیں۔ تو جو عبد ہے وہ اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے؟ ’’ الْوَاحِدُ ‘‘ اور ’’ الْقَهَّارُ ‘‘ پر الف لام کی وجہ سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، یعنی وہی واحد ہے، اس کے سوا کوئی واحد نہیں، اس کا ایک ہو نا کسی کو اولاد بنانے کے منافی ہے، کیونکہ اولاد اولاد بنانے والے کی جنس ہوتی ہے، جیسا کہ انسان کسی انسان ہی کو اولاد بنا سکتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کوئی جنس نہیں، کیونکہ وہ ہے ہی اکیلا، تو کوئی اس کی اولاد کیسے بن گیا؟ 4۔ الْقَهَّارُ : اور وہی قہار ہے، اس سے اولاد کی اور ہر قسم کے شریک کی نفی ہو گئی، کیونکہ ہر چیز اس کی مقہور ہے۔ وہ سب پر قاہر اور غالب ہی نہیں بلکہ قہار اور زبردست غالب ہے، جب کہ باپ اور بیٹے کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا۔ اگلی آیات میں اپنی وحدانیت اور قدرت و عظمت پر دلالت کرنے والی کئی اور چیزیں بیان فرمائیں۔