أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
خبر دار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا سچا فیصلہ اللہ خود کرے گا جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں کو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا (١)
1۔ اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ....: یعنی اصل حقیقت تو یہی ہے کہ خالص عبادت اور اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، مگر اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھنے والے مشرک لوگ عموماً یہی کہا کرتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت انھیں خالق و مالک سمجھ کر نہیں کرتے، خالق و مالک اور اصل معبود تو ہم اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی ذات بہت بلند ہے، ہماری وہاں رسائی نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم ان ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں اور انھیں پکارتے اور ان سے فریاد کرتے ہیں، تاکہ یہ ہماری حاجتیں اور دعائیں اللہ تعالیٰ سے پوری کروا دیں۔ کئی لوگ اس کے لیے چھت پر پہنچنے کے لیے سیڑھی کے ضروری ہونے کی مثال بیان کیا کرتے ہیں۔ 2۔ اِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ....: ایک اللہ کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے والے تو ایک ہی معبود پر متفق ہیں مگر اس کے سوا دوسری ہستیوں کو پکارنے والوں کا کسی ایک ہستی پر اتفاق نہیں، کوئی کسی کو پکارتا ہے اور کوئی کسی کو، کیونکہ کسی کے پاس اس بات کی دلیل نہیں، نہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ فلاں ہستی کو فلاں کام کا اختیار ہے، یا وہ اللہ تعالیٰ سے فلاں فلاں کام کروا سکتا ہے۔ مشرکین محض گمان کی بنا پر انھیں پوجتے جا رہے ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے گمان کے مطابق کسی نہ کسی داتا، دستگیر، مشکل کُشا یا حاجت روا کو پکار تا چلا جا رہا ہے۔ مشرکین کی یہ بات چونکہ بالکل ہی بودی اور بے کار ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا رد کرنے کے بجائے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومن موحّدوں اور ان مشرکین کے درمیان اور مشرکوں کے مختلف گروہوں کے باہمی اختلاف میں حق بات کا فیصلہ فرمائے گا۔ 3۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ : اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے لیے دو لفظ استعمال فرمائے ہیں، ایک ’’ كٰذِبٌ ‘‘ اور دوسرا ’’كَفَّارٌ ‘‘۔ ’’ كٰذِبٌ ‘‘ اس لیے کہ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ ایسی کوئی ہستی موجود ہے جس کی پرستش سے، یا اسے پکارنے سے اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہو جاتا ہے اور ’’ كَفَّارٌ ‘‘ (بہت ناشکرا) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی دعا خود سنتا اور قبول کرتا ہے، لیکن کس قدر نا شکرے ہیں وہ لوگ جو اس کی اس نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے اس کے بجائے بے اختیار ہستیوں کو پکارتے اور ان کی پرستش کرتے ہیں اور اس کے لیے سیڑھی وغیرہ کی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتا ہے، میں قریب ہوں اور یہ کہتے ہیں کہ اس تک رسائی کے لیے واسطے ضروری ہیں۔