تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب با حکمت کی طرف سے ہے۔
تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : ’’ الْكِتٰبِ ‘‘ میں الف لام عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ’’ اس کتاب‘‘ کیا گیا ہے۔ کفار کہتے تھے کہ یہ قرآن محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خود بنا لیا ہے، جیسا کہ سورۂ طور میں ہے : ﴿ اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗ﴾ [الطور : ۳۳ ] ’’یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے یہ خود گھڑ لیا ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے سورت کی ابتدا اس بات سے فرمائی کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے، ساتھ ہی اپنی دو صفات ذکر فرمائیں، تاکہ وہ اس کلام کو معمولی خیال نہ کریں، بلکہ اس کی اہمیت سمجھیں۔ ایک یہ کہ یہ کلام نازل کرنے والا عزیز یعنی سب پر غالب ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اس کا ذرہ بھر مقابلہ بھی کر سکے گا۔ دوسرا یہ کہ وہ حکیم یعنی حکمت والا ہے، اس لیے یہ کتاب سراسر دانائی اور حکمت پر مشتمل ہے، کوئی عقل سے عاری شخص ہی اس سے بے رخی اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی سورتوں کی ابتدا اس بات سے فرمائی ہے کہ یہ اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے اور ہر جگہ اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے اپنی چند صفات کا تذکرہ فرمایا ہے، مثلاً سورۂ مومن کے شروع میں فرمایا : ﴿حٰمٓ (1) تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ﴾ ’’ حٰمٓ۔ اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے، جو سب پر غالب ، ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘ سورۂ جاثیہ اور احقاف کے شروع میں فرمایا : ﴿ حٰمٓ (1) تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ﴾ ’’ حٰمٓ۔ اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ سورۂ یٰس کے شروع میں فرمایا : ﴿ تَنْزِيْلُ الْعَزِیْرِ الرَّحِیْمِ ﴾ ’’ یہ سب پر غالب، نہایت مہربان کا نازل کیا ہوا ہے۔‘‘ سورۂ حٰم السجدہ کے شروع میں فرمایا : ﴿ حٰمٓ (1) تَنْزِيْلُ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ ’’ حٰمٓ۔ اس بے حد رحم والے، نہایت مہربان کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔‘‘ ظاہر ہے اس میں قرآن مجید کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی تاکید ہے اور اس کی خوبی اور فضیلت کا بیان بھی، کیونکہ کلام کرنے والا جتنی اعلیٰ صفات والا ہو گا اس کا کلام بھی اتنا ہی اعلیٰ اور کامل ہوگا۔