قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ
اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا (١) کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔
1۔ قَالَ يٰاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ: اس آیت سے آدم علیہ السلام کا شرف اور ان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ میں نے اسے اپنے دو ہاتھوں سے بنایا۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کی تاویل کرتے ہیں، مگر جب خود اس نے اپنے ہاتھوں کا ذکر فرمایا ہے تو اس کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ تفصیل سورۂ مائدہ کی آیت (۶۴) میں اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿ بَلْ يَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ ﴾ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ : ’’ اَسْتَكْبَرْتَ ‘‘ اصل میں ’’أَ اِسْتَكْبَرْتَ‘‘ تھا، ہمزہ استفہام آنے کے بعد ہمزہ وصلی کی ضرورت نہ رہی، اس لیے اسے حذف کر دیا۔ تفصیل سورۂ حجر (۳۲ تا ۴۰) میں دیکھیے۔