أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ
کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کردیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے؟
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ ....: یہ یومِ حساب حق ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ اگر یومِ حساب نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان اور عمل صالح والے اور زمین میں فساد کرنے والے ہمارے ہاں ایک جیسے ہیں، اس طرح ہم سے ڈرنے والے اور ڈھیٹ بن کر نافرمانی کرنے والے دونوں یکساں ہیں۔ خود ہی سوچو، کیا عدل و حکمت کا تقاضا یہ ہے اور کیا ہم ایسا ہونے دیں گے؟ دنیا میں تو امتحان کی وجہ سے اور مختصر مدت ہونے کی وجہ سے نیک و بد کی جزا و سزا پوری طرح ممکن نہیں، یہ سب کچھ یومِ حساب میں ہو گا۔ اس کی ہم معنی سورۂ جاثیہ کی آیت (۲۱) بھی ملاحظہ فرمائیں۔