سورة ص - آیت 27

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا (١) یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا: پچھلی آیت میں خواہش پرستی کا اصل سبب یومِ حساب کو بھولنا بتایا ہے، اب یومِ حساب کے حق ہونے کی چند دلیلیں ذکر فرمائیں۔ سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا معمولی سا کھیت بھی کسی نوکر کے حوالے کرے تو ممکن نہیں کہ اس سے باز پرس نہ کرے، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنے عظیم الشّان آسمان و زمین اور ان کے مابین کی چیزیں پیدا کیں، پھر زمین پر انسان کو بسایا اور اس کی ہر چیز اس کے لیے پیدا فرمائی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا﴾ [ البقرۃ : ۲۹ ] ’’ وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمھارے لیے پیدا کیا۔‘‘ آسمان کو اس کے لیے چھت بنایا، اس کی ہر ضرورت کا بندوبست فرمایا، پھر وہ اس سے اس کی کارکردگی کے متعلق سوال نہ کرے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ سب کچھ اس نے باطل اور بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ سب کچھ محض کھیل ہے جو اللہ تعالیٰ کھیل رہا ہے۔ نہیں! تم سب کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی طریقوں سے بیان فرمائی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ [ المؤمنون : ۱۱۵ ] ’’تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ (38) مَا خَلَقْنٰهُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ (39) اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيْقَاتُهُمْ اَجْمَعِيْنَ ﴾ [ الدخان : ۳۸ تا ۴۰ ] ’’اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیلتے ہو ئے نہیں بنایا۔ ہم نے ان دونوں کو حق ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔ یقیناً فیصلے کا دن ان سب کا مقرر وقت ہے۔‘‘ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : یعنی اس آسمان و زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کے باطل اور بے مقصد ہونے کا خیال ان لوگوں کا ہے جو توحید و آخرت کے منکر ہیں۔ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ: یہاں ’’فَوَيْلٌ لَّهُمْ‘‘ (تو ان کے لیے بڑی ہلاکت ہے) کہنے کے بجائے ’’ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ (سو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا آگ کی صورت میں بڑی ہلاکت ہے)کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ویل (بڑی ہلاکت) کا باعث ان لوگوں کا کفر ہے۔