وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ
اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے (١)۔
1۔ وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ....: ’’نَبَؤُا‘‘ کسی اہم خبر کو کہتے ہیں۔ ’’ الْخَصْمِ‘‘ واحد، تثنیہ اور جمع سب پر بولا جاتا ہے۔ ’’ تَسَوَّرُوا ‘‘ ’’سُوْرٌ‘‘ دیوار کو کہتے ہیں اور ’’ تَسَوَّرُوا ‘‘ کے ضمن میں ’’دَخَلُوْا‘‘ کا معنی شامل ہونے کی وجہ سے ’’ الْمِحْرَابَ ‘‘ کو اس کا مفعول بنایا گیا ہے، یعنی دیوار پھاند کر ’’محراب‘‘ میں داخل ہوئے۔ ’’ الْمِحْرَابَ ‘‘ عبادت کے لیے مخصوص کمرہ۔ ’’ لَا تُشْطِطْ ‘‘ بے انصافی نہ کر۔ ’’شَطَطٌ‘‘ زیادتی، ظلم۔ ’’أَشَطَّ الْحَاكِمُ إِذَا جَارَ‘‘ (افعال) حاکم نے بے انصافی کی۔ ’’ نَعْجَةً ‘‘ ’’أُنْثٰي مِنَ الضَّأْنِ‘‘ بھیڑ یا دنبی۔ ’’عَزَّ يَعِزُّ‘‘ (ض) غالب آنا۔ ’’ الْخُلَطَآءِ ‘‘ ’’خَلِيْطٌ‘‘ کی جمع ہے، شریک۔ مگر ’’خَلِيْطٌ‘‘ عام ہے، اس میں وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جنھوں نے اپنا مال ملایا ہوا ہو، مگر ہر ایک اپنے اپنے مال کا الگ الگ مالک ہو۔ ’’ قَلِيْلٌ ‘‘ بہت کم۔ ’’ مَا ‘‘ کے ساتھ تاکید کی وجہ سے ’’بہت ہی کم۔‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے داؤد علیہ السلام کو یاد کرنے کا حکم دیا اور یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے بات کا آغاز اس طرح کیا کہ کیا تیرے پاس ان جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے؟ مقصد اسے سننے کا شوق دلانا ہے۔ 3۔ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ : جب وہ جھگڑنے والے دیوار پھاند کر داؤد علیہ السلام کے پاس ان کے عبادت کے لیے مخصوص کمرے میں آ گئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ پہرے وغیرہ کی وجہ سے دروازے کی طرف سے داخل نہیں ہو سکے، ورنہ انھیں دیوار پھاندنے کی ضرورت نہیں تھی۔ 4۔ اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاؤدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ : داؤد علیہ السلام ان کے اس طرح دیوار پھاند کر اچانک آ دھمکنے سے گھبرا گئے کہ یہ دشمن نہ ہوں، جو قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کے لیے آئے ہیں، خصوصاً اس لیے کہ بنی اسرائیل کا اپنے انبیاء کو قتل کرنا معروف تھا۔ 5۔ قَالُوْا لَا تَخَفْ ....: انھوں نے آتے ہی سب سے پہلے تسلی دی کہ ڈرو نہیں، ہم کسی بری نیت سے نہیں آئے، بلکہ دونوں آپس کا ایک جھگڑا لے کر آپ کے پاس آئے ہیں، اس لیے آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور بے انصافی نہ کریں اور ہماری راہ نمائی سیدھے راستے کی طرف کریں۔ 6۔ اِنَّ هٰذَا اَخِيْ لَهٗ تِسْعٌ وَّ تِسْعُوْنَ نَعْجَةً ....: یہ میرا حقیقی یا دینی بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے۔ تو اس نے مجھے کہا ہے کہ وہ ایک بھی میں اس کے سپرد کر دوں اور بات کرنے میں اس نے مجھ پر بہت سختی کی اور مجھے دبا لیا ہے۔