وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ
اور لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی (١) ہے، اور حالانکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وہ (اس عقیدے کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کئے جائیں گے (٢)
1۔ وَ جَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَ بَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ....: اللہ تعالیٰ اور جنّوں کے درمیان نسب بنانے سے کیا مراد ہے؟ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر میں دو قول ذکر کیے ہیں، پہلا مجاہد کا قول کہ مشرکین نے کہا، فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، تو ان کی مائیں کون ہیں؟ انھوں نے کہا ’’بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ‘‘ ’’سردار جننیوں کی بیٹیاں۔‘‘ مگر اس تفسیر میں اللہ تعالیٰ اور جنّوں کے درمیان نسبی رشتہ قائم نہیں ہوتا، بلکہ صہری یعنی سسرالی رشتہ قائم ہوتا ہے، کیونکہ جننیوں کی بیٹیاں (نعوذ باللہ) اللہ کی بیویاں ہوں تو جنّ سسر ہوں گے۔ علاوہ ازیں مجاہد کی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات بھی نہیں، اس لیے یہ منقطع ہے۔ دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ عنھما کا نقل کیا ہے کہ اللہ کے ان دشمنوں نے اللہ تعالیٰ اور ابلیس کو دو بھائی قرار دیا۔ مفسرین نے اس تشریح میں فرمایا کہ یہ ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ خالق دو ہیں، ایک خالق خیر، جسے ’’یزداں‘‘ کہتے ہیں اور ایک خالقِ شر، جسے ’’اہرمن‘‘ کہتے ہیں۔ مگر اس تفسیر میں بھی دو خرابیاں ہیں، ایک تو اس کی سند ثابت نہیں، کیونکہ یہ طبری نے عوفی عن ابن عباس کے طریق سے بیان کی ہے، جو ضعیف ہے، دوسرے اس میں اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان بھائی ہونے کے رشتے کا بیان ہے، جب کہ آیت میں عام جنّوں کا ذکر ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہاں ’’ الْجِنَّةِ ‘‘ سے مراد فرشتے ہیں، کیونکہ جنّات کو ان کے چھپے ہوئے ہونے کی وجہ سے ’’جنّ ‘‘ کہتے ہیں، جیسا کہ جنین، جنون وغیرہ الفاظ میں یہی مفہوم پایا جاتا ہے اور فرشتے بھی چھپے ہوتے ہیں، اس لیے یہاں مراد یہ ہے کہ انھوں نے فرشتوں اور اللہ کے درمیان نسبی رشتہ قرار دیا ہے، اس طرح کہ انھیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ مگر اس میں بھی دو خرابیاں ہیں، ایک تو فرشتوں کو ’’جنّ‘‘ کہنا بہت بڑا تکلف ہے، کیونکہ جنّ آگ سے پیدا ہوئے ہیں اور فرشتے نور سے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ یہ بات تو اوپر آیت (۱۵۳) میں گزر چکی ہے : ﴿ اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِيْنَ﴾ اسے بلا ضرورت دوبارہ ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ میں نے اس مسئلے میں بہت سی تفاسیر کا مطالعہ کیا، سب کا خلاصہ یہ ہے جو میں نے اوپر بیان کر دیا۔ آخر میں مجھے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر سے اطمینان ہوا، وہ یہ کہ مشرکین جس طرح فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے جنّوں کو اللہ کے بیٹے (یا اولاد) کہتے تھے۔ دلیل اس کی اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان ہے کہ انھوں نے اللہ کے درمیان اور جنّوں کے درمیان نسب قرار دیا۔ ظاہر ہے نسب کا اطلاق سب سے پہلے بیٹوں اور بیٹیوں پر ہوتا ہے۔ مشرکوں سے یہ بات کچھ بعید نہیں اور اللہ سے زیادہ سچا راوی کون ہو سکتا ہے؟ (واللہ اعلم) 2۔ وَ لَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ : ’’مُحْضَرُوْنَ‘‘ (حاضر کیے گئے) انھی کے متعلق کہا جاتا ہے جو خود آنا نہ چاہتے ہوں۔ یعنی یقیناً جنّوں کو معلوم ہے کہ وہ حساب کے لیے حاضر کیے جانے والے ہیں۔ کیا باپ کا اولاد کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے؟