سورة الصافات - آیت 104

وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ نَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰاِبْرٰهِيْمُ ....: جب ان دونوں نے حکم مان لیا اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا ( تو ہوا جو ہوا) اور ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے خواب سچا کر دکھایا۔ مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا : ’’اگر تم کہو کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو کیسے فرمایا کہ تو نے خواب سچا کر دکھایا، حالانکہ انھوں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، خواب سچا تو اسی صورت میں ہونا تھا کہ اسے ذبح کر دیتے؟ تو میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے خواب سچا کر دکھانے والا اس لیے فرمایا کہ انھوں نے اپنی پوری کوشش اور طاقت صرف کر دی، جو کچھ کر سکتے تھے کیا، ذبح کرنے والا جو کچھ کرتا ہے وہ سب کیا، تو اللہ تعالیٰ کو جو مطلوب تھا وہ انھوں نے ادا کر دیا اور وہ تھا اللہ تعالیٰ کے حکم کے لیے پوری طرح مطیع اور فرماں بردار ہو جانا۔‘‘ بقاعی نے اس سوال کے جواب میں فرمایا : ’’قَالَ اللّٰهُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا فِيْ أَنَّكَ تَذْبَحُهُ فَإِنَّكَ قَدْ عَلَجْتَ وَ بَذَلْتَ الْوُسْعَ فِيْهِ وَ فَعَلْتَ مَا رَأَيْتَ فِي الْمَنَامِ فَمَا انْذَبَحَ لِأَنَّكَ مَا رَأَيْتَ أَنَّكَ ذَبَحْتَهُ فَاكْفُفْ عَنْ مُعَالَجَةِ الذِّبْحِ بِأَزْيَدَ مِنْ هٰذَا ‘‘ ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تو نے اپنا خواب سچا کر دیا کہ تو اسے ذبح کر رہا ہے، کیونکہ تو نے کوشش کی اور اپنی پوری طاقت اس میں صرف کی اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا وہ کیا، مگر وہ ذبح نہیں ہوا، کیونکہ تو نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ تو نے اسے ذبح کر دیا ہے (بلکہ یہ دیکھا تھا کہ ذبح کر رہے ہو) اس لیے اس سے زیادہ ذبح کی کوشش سے رک جا۔‘‘ بقاعی کے علاوہ اور کئی مفسرین نے یہی توجیہ فرمائی ہے کہ خواب ’’ اَنِّيْ اَذْبَحُكَ ‘‘ تھا، ’’أَنِّيْ ذَبَحْتُكَ‘‘ نہیں تھا اور ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ کیا اس کے ساتھ وہ خواب سچا ہو گیا۔ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ: یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کاروں کو ایسے مشکل حکم کر کے آزماتے ہیں، پھر انھیں ثابت قدم رکھتے ہیں۔ جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں اور جس آزمائش میں ہم انھیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں، جیسے ابراہیم علیہ السلام کو آگ کی آزمائش میں ڈالا اور وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا درجہ بلند کر دیا۔ اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں بیٹے کو بچا لیا اور درجات بھی بلند کر دیے۔