وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّىٰ يُبْصِرُونَ
اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں بے نور کردیتے پھر یہ راستے کی طرف دوڑتے پھرتے لیکن انہیں کیسے دکھائی دیتا ؟ (١)
1۔ وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰى اَعْيُنِهِمْ ....: پچھلی دو آیتوں کے ساتھ ان دو آیات کا تعلق یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ قیامت کے دن شرک سے انکار کے بعد اس کے اعتراف پر مجبور ہو جائیں گے، تو اس سے دل میں خیال گزرتا ہے کہ کاش! دنیا میں بھی انھیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے رسولوں کی تصدیق پر مجبور کر دیا جاتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اگر ہمارا ارادہ یہ ہوتا تو ہم ایسا کر دیتے اور کفرو شرک کرنے والوں کو فوراً پکڑ لیتے، تاکہ وہ اپنے کفرو شرک سے باز آ جائیں، مگر ہم نے دنیا کو دارالامتحان بنایا ہے اور ہر ایک کو عمل کی مہلت دی ہے۔ (ابن عاشور) 2۔ ’’طَمَسَ يَطْمِسُ‘‘ (ض) کا معنی ’’مٹانا‘‘ ہے، لفظ ’’ عَلٰى ‘‘ کے بغیر بھی اس کا معنی یہی ہے، ’’ عَلٰى ‘‘ کے لفظ سے مراد مٹانے میں مبالغہ ہے۔ یعنی اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں سرے ہی سے مٹا دیں، پھر وہ راستے کی طرف بڑھیں تو اسے کس طرح دیکھیں گے۔ ’’ لَوْ ‘‘ کا لفظ شرط کے نہ ہونے کی وجہ سے جزا کے نہ ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ’’لیکن ہم نے یہ نہیں چاہا تو ایسا نہیں ہوا، بلکہ ہم نے انھیں ان کی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود ایک وقت تک مہلت دی ہے۔‘‘