سورة يس - آیت 60

أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْ اٰدَمَ ....:’’عَهِدَ إِلَيْهِ‘‘ کا معنی ہے اس کو وصیت کی۔ آلوسی نے فرمایا، اس تاکیدی نصیحت سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ اوامر و نواہی ہیں جو اس نے اپنے رسولوں کی معرفت بنی آدم کے لیے بھیجے، جن میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ﴿ يٰبَنِيْ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَا اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا اِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَآءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۷ ] ’’اے آدم کی اولاد! کہیں شیطان تمھیں فتنے میں نہ ڈال دے، جس طرح اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، وہ دونوں سے ان کے لباس اتارتا تھا، تاکہ دونوں کو ان کی شرم گاہیں دکھائے، بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمھیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے۔ بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کے دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔‘‘ بعض نے کہا، مراد وہ عہد ہے جو ’’ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ‘‘ میں مذکور ہے، (دیکھیے سورۂ اعراف : ۱۷۲ کی تفسیر) یا وہ عقلی دلائل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے کائنات میں رکھے ہیں۔