قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ
(اس سے) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہوجاتا۔
1۔ قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ : یہاں درمیان کی بات محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہی ہے کہ اس کی اس بات پر قوم کے لوگ اس پر پل پڑے اور اسے شہید کر دیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی شہادت کو قبول فرمایا اور شہادت کی دیر تھی کہ اسے جنت میں داخلے کی بشارت مل گئی۔ شہداء کے جنت میں داخلے کی کیفیت کے متعلق دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۵۴) اور آل عمران (۱۶۹ تا ۱۷۱)۔ 2۔ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ : اس سے ظاہر ہے کہ وہ بندہ اپنی قوم کا کس قدر خیر خواہ تھا کہ زندگی میں بھی اس نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قوم کو نصیحت کی اور مرنے کے بعد بھی ان کے لیے اس کی خیر خواہی جاری رہی، پھر اپنے قاتلوں کے متعلق اس کی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو اعزاز و اکرام بخشا کسی طرح ان کو بھی معلوم ہو جائے اور اسے جان کر وہ بھی ایمان لے آئیں اور اس اکرام کے حق دار بن جائیں۔ فی الحقیقت مومن ایسا ہی خیر خواہ ہوتا ہے، احد کے شہداء نے شہادت کے بعد اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے لیے اس میں سبق ہے کہ دعوت دیتے ہوئے کبھی غیظ و غضب اور انتقامی جذبے سے مغلوب نہ ہوں، بلکہ نہایت صبرو ہمت کے ساتھ دعوت جاری رکھیں۔