وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ
اور ایک شخص (اس) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راہ پر چلو (١)
1۔ وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰى: آیات سے ظاہر ہے کہ پیغمبروں کی دعوت اور قوم کا مباحثہ مدت تک جاری رہا، حتیٰ کہ ان کی دعوت ساری بستی میں پھیل گئی اور جب انھوں نے قتل کی دھمکی دی تو یہ خبر بھی ہر طرف پھیل گئی کہ بستی کے لوگ پیغمبروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ بستی خاصی بڑی تھی، جسے پہلے اللہ تعالیٰ نے ’’ الْقَرْيَةِ ‘‘ فرمایا ہے، اس کے بعد اسے ’’ الْمَدِيْنَةِ ‘‘ یعنی شہر کہا ہے۔ اس شہر کے سب سے دور کنارے میں ایک صالح آدمی رہتا تھا، اسے جب پیغمبروں کی دعوت اور قوم کے انکار کی اور پیغمبروں کو قتل کرنے کی دھمکیوں کی خبر پہنچی تو وہ شہر کے سب سے دور کنارے سے دوڑتا ہوا آیا کہ کہیں وہ جلدی میں پیغمبروں کو قتل ہی نہ کر دیں، اور وہ اپنی قوم کو سمجھانے لگا۔ اس مرد صالح کا یہ عمل ہمارے لیے نمونہ ہے کہ جب اسے معلوم ہو گیا کہ پیغمبر حق پر ہیں تو اس نے اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہتا، بلکہ حق کی شہادت دینے کے لیے جتنی جلدی ہو سکتا تھا دوڑتا ہوا پہنچا اور اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قوم کو سمجھانے کی پوری کوشش کی اور کہا، اے میری قوم! اللہ کے ان رسولوں کی پیروی اختیار کرو۔ اس مرد صالح کا نام تفاسیر میں حبیب نجار لکھا ہے جو اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ (واللہ اعلم) 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ سورۂ قصص میں موسیٰ علیہ السلام کو ان کے قتل کے مشورے کی خبر دینے والے صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ﴾ [ القصص : ۲۰ ] جب کہ یہاں فرمایا : ﴿ وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ﴾اس میں کیا حکمت ہے؟ اہلِ علم نے فرمایا کہ ہمیشہ پہلے اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے جو موقع کے لحاظ سے زیادہ اہم ہو۔ سورۂ قصص میں موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دینے والے شخص کی مردانگی کا اظہار زیادہ اہم تھا، اس لیے ’’ رَجُلٌ ‘‘ کا ذکر پہلے فرمایا، جب کہ یہاں اس مرد ناصح کا دور سے آ کر سمجھانے کا ذکر زیادہ اہم تھا، اس لیے ’’ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ ‘‘ کو پہلے ذکر فرمایا۔ (و اللہ اعلم)