إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ
جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے (اول) دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی سو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں (١)
1۔ اِذْ اَرْسَلْنَا اِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا ....: یعنی ہم نے ان لوگوں کی طرف دو رسول بھیجے تو انھوں نے دونوں کو جھٹلا دیا، تو ہم نے انھیں تیسرے پیغمبر کے ساتھ قوت دی، تو ان سب نے حرف تاکید ’’إِنَّ‘‘ کے ساتھ انھیں کہا کہ یقیناً ہم تمھاری طرف بھیجے ہوئے ہیں۔ 2۔ مفسر عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ بستی کون سی تھی؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں۔ (بعض) مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد روم میں واقع شہر انطاکیہ ہے۔ پھر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ رسول بلاواسطہ رسول تھے یا بالواسطہ رسول یا مبلغ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مبلغ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہی نے بھیجے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ قرآن کے بیان سے سرسری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کے رسول تھے اور اگر یہی بات ہو تو ان کا زمانہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا زمانہ ہونا چاہیے، کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا، اور بستی کے نام کی تعیین یا رسول کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہونے کی تعیین کوئی مقصود بالذات چیز بھی نہیں کہ اس کی تحقیق ضروری ہو، مقصود بالذات چیز تو کفارِ مکہ کو سمجھانا ہے۔ کیونکہ کفارِ مکہ اور ان بستی والوں کے حالات میں بہت سی باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔‘‘ یہ رسول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان پر وہی اعتراض کیا گیا جو اللہ کے دوسرے رسولوں پر کیا گیا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو۔ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں پر اس اعتراض کے بجائے وہ کوئی اور اعتراض کرتے۔