لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے (١)
لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰى اَكْثَرِهِمْ ....:’’حَقَّ الْقَوْلُ‘‘(بات ثابت ہو چکی) سے مراد ان پر عذاب کا فیصلہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ﴾ [السجدۃ : ۱۳ ] ’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے اور لیکن میری طرف سے بات پکی ہو چکی کہ یقیناً میں جہنم کو جنّوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔‘‘ یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو پیغمبر کی آمد اور حق واضح ہونے کے بعد بھی اپنے کفر پر اڑے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ازل ہی میں ان کے بارے میں علم تھا کہ وہ اپنے عناد اور سرکشی کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے اور اس نے اپنے اس علم کی بنا پر لکھ دیا تھا کہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ نے جبراً انھیں ایمان سے محروم رکھا، کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق قرار نہ پاتے۔ یہ بات کہ ان کی گمراہی کا باعث خود ان کی ضد اور ان کا عناد ہے، کئی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۶، ۲۷)، زخرف (۳۶، ۳۷)، صف (۵)، انعام (۱۱۰)، حم السجدہ (۲۵) اور احقاف (۱۷، ۱۸) اس آیت کی ہم معنی یہ آیت ہے : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ (96) وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ﴾ [ یونس : ۹۶، ۹۷ ] ’’بے شک وہ لوگ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ خواہ ان کے پاس ہر نشانی آ جائے، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔‘‘