وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا
اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہونگے (١) پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آپہنچے (٢) تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا۔
1۔ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ....: مشرکین کے کفر اور ناشکری کا اظہار شرک کی صورت میں بھی ہوتا تھا اور پیغمبر کو جھٹلانے کی صورت میں بھی، چنانچہ شرک کی تردید کے بعد پیغمبر کو جھٹلانے کی صورت میں ان کی ناشکری کا ذکر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے مشرکین مکہ کی سفر کے دوران میں عرب کے دوسرے شہروں مثلاً یثرب اور خیبر وغیرہ میں یا دوسرے ملکوں مثلاً شام وغیرہ میں اہل کتاب سے ملاقات ہوتی تو وہ ان کی بت پرستی اور دوسری جہالتوں پر طعن کرتے، تو یہ اس کے جواب میں کہتے کہ تم لوگوں کے پاس تو اللہ کے رسول اور اس کی کتابیں آئیں، اگر ہمارے پاس کوئی پیغمبر آیا تو ہم کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے، اور اپنی اس بات پر پکی سے پکی جو قسم وہ کھا سکتے تھے کھاتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : ﴿اَنْ تَقُوْلُوْا اِنَّمَا اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ (156) اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّا اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّا اَهْدٰى مِنْهُمْ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَ صَدَفَ عَنْهَا ﴾ [ الأنعام : ۱۵۶، ۱۵۷ ] ’’ایسا نہ ہو کہ تم کہو کہ کتاب تو صرف ان دو گروہوں پر اتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے اور بے شک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے یقیناً بے خبر تھے۔ یا یہ کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت والے ہوتے۔ پس بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔‘‘ اور جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اِنْ كَانُوْا لَيَقُوْلُوْنَ (167) لَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ (168) لَكُنَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ (169) فَكَفَرُوْا بِهٖ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ الصافات : ۱۶۷ تا ۱۷۰ ] ’’اور بے شک وہ (کافر) تو کہا کرتے تھے۔ اگر ہمارے پاس پہلے لوگوں کی کوئی نصیحت ہوتی۔ تو ہم ضرور اللہ کے چنے ہوئے بندے ہوتے۔ تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا، سو جلد ہی جان لیں گے۔‘‘ 2۔ فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا : تو جب ان کے پاس ڈرانے والا آیا تو بجائے اس کے کہ وہ کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت قبول کرتے، وہ اپنے کفر و شرک پر اڑے رہے، بلکہ رسول کی آمد نے ان کے بدکنے اور دور بھاگنے میں اضافہ ہی کیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ ہدایت سے دور ہو گئے۔