سورة فاطر - آیت 34

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور کہیں گے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کیا بیشک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا بڑا قدردان ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ : حزن کسی چیز کے ہاتھ سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی دل کی کیفیت کا نام ہے، یعنی غم، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لِكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ﴾ [ الحدید : ۲۳ ] ’’تاکہ تم اس پر غم نہ کرو جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے۔‘‘ دنیا میں انسان کو جو بھی ملا ہے وہ اس کے ہاتھ سے نکل جانے والا ہے، اس لیے دنیا میں جب تک کوئی نعمت انسان کے پاس رہتی ہے وہ اس خوف میں رہتا ہے کہ یہ نعمت مجھ سے چھن نہ جائے اور جب چھنتی ہے تو اسے غم ہوتا ہے۔ جنت میں داخلے اور موت کے ذبح کر دیے جانے کے بعد اہلِ جنت کو نہ کوئی نعمت چھننے کا خوف ہو گا، یعنی ’’ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ‘‘ اور نہ کسی نعمت کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم، یعنی ’’ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ‘‘ کیونکہ نہ ان کے جمال میں کمی ہو گی، نہ کھانے پینے میں، نہ ان کی قوت اور جوانی میں، نہ ان کی لذتوں میں اور نہ ہمیشہ رہائش میں تو پھر غم کس بات کا، اس لیے وہ اللہ کا شکر ادا کریں گے، جس نے ان سے ہر قسم کا غم دور کر دیا۔ دنیا کی ہر نعمت تو ختم ہونے کی وجہ سے غم کا باعث بنتی تھی، یہ جنت ہی ہے جس کی کوئی نعمت غم کا باعث نہیں بنے گی۔ ابن الرومی نے کہا ہے: وَ مَنْ سَرَّهُ أَلَّا يَرٰي مَا يَسُوْءُهُ فَلَا يَتَّخِذْ شَيْئًا يُبَالِيْ لَهُ فَقْدًا ’’جسے پسند ہو کہ وہ غمگین کرنے والی کوئی چیز نہ دیکھے تو وہ ایسی کوئی چیز نہ پکڑے جس کے گم ہونے کی اسے فکر ہو۔‘‘ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرٌ: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (۳۰)۔