وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ
اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں انہوں نے بھی جھٹلایا تھا ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر معجزے اور صحیفے اور روشن کتابیں لے کر آئے تھے (١)
1۔ وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید تسلی دی ہے۔ یعنی اگر یہ لوگ تجھے جھٹلا دیں تو غم یا افسوس کی ضرورت نہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، نہ آپ پہلے رسول ہیں جسے جھٹلایا گیا ہو، بلکہ آپ سے پہلے لوگوں کے پاس بھی کئی رسول آئے اور آپ سے پہلے لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔ 2۔ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ: یہاں ایک سوال ہے کہ ’’اَلْكِتَابُ الْمُنِيْرُ‘‘ ’’اَلزُّبُرُ‘‘ میں بھی داخل ہے اور ’’اَلْبَيِّنَاتُ‘‘میں بھی، تو پھر عطف ڈال کر اسے الگ کیوں ذکر کیا گیا؟ بعض اہل علم نے اس کا جواب دیا کہ تینوں الفاظ اگرچہ ایک چیز پر صادق آتے ہیں مگر عطف اس لیے ڈالا گیا ہے کہ تینوں سے الگ الگ مفہوم مراد لیا گیا ہے، چنانچہ ’’اَلْبَيِّنَاتُ‘‘ سے مراد معجزات ہیں،’’اَلزُّبُرُ‘‘سے مراد وہ کتابیں ہیں جو وعظ و نصیحت پر مشتمل ہیں اور ’’اَلْكِتَابُ الْمُنِيْرُ‘‘سے مراد وہ کتابیں ہیں جن میں شریعت کے احکام تھے، جیسا کہ تورات وغیرہ۔ (شوکانی)