سورة سبأ - آیت 14

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ ....: ’’ دَآبَّةُ الْاَرْضِ ‘‘ دیمک۔ ’’ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ ‘‘ ’’تَبَيَّنَ يَتَبَيَّنُ‘‘ (تفعّل) کا معنی واضح طور پر جان لینا بھی ہے اور کسی چیز کا واضح ہو جانا اور کھل کر سامنے آجانا بھی ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے: إِذَا اشْتَبَكَتْ دُمُوْعٌ فِيْ خُدُوْدٍ تَبَيَّنَ مَنْ بَكٰي مِمَّنْ تَبَاكٰي ’’جب رخساروں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تو وہ لوگ صاف ظاہر ہو گئے جو رو رہے تھے، ان لوگوں سے جو رونے کی نمائش کر رہے تھے۔‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو عطا کردہ عظیم سلطنت، علمی کمالات اور ہوا اور جنّوں کی تسخیر وغیرہ کے بیان کے بعد ان کی موت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، اگر اس سے کوئی بچتا تو سلیمان علیہ السلام ضرور بچ جاتے، جن کے پاس اتنی عظیم قوتیں تھیں۔ 3۔ سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ جنّات غیب جانتے ہیں، جیسا کہ آج کل بھی اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنّوں کے علم غیب کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار فرمایا، وہ یہ کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ جنّات ان کاموں میں مصروف تھے جن کا حکم انھیں سلیمان علیہ السلام نے دے رکھا تھا، انھیں معلوم نہیں ہو سکا کہ سلیمان علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ بدستور کام میں جتے رہے۔ دیمک ان کی لاٹھی کو اندر سے کھاتی رہی، جب لاٹھی اندر سے کھوکھلی ہو گئی اور سلیمان علیہ السلام کا بوجھ برداشت نہ کر سکی تو وہ گر پڑے۔ تب جا کر لوگوں اور جنّوں کو ان کی وفات کا پتا چلا۔ اس واقعہ سے تمام لوگوں کے سامنے جنّوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ 4۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تابع جنّوں اور شیاطین سے سرکش انسانی قبائل مراد نہیں، کیونکہ ان کے متعلق کوئی بھی علم غیب کا قائل نہیں، نہ خود انھیں اس کا دعویٰ ہو سکتا ہے، بلکہ یہ حقیقی جنّ و شیاطین تھے۔ 5۔ اکثر تفاسیر میں لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام وفات کے بعد لاٹھی کے سہارے ایک سال تک کھڑے رہے۔ بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کو حکم دے کر شیشے کا ایک مکان بنوایا اور اس میں لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے۔ اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔ جنّات ان کو ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑے دیکھتے رہے اور انھیں زندہ سمجھ کر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان کی بتائی ہوئی تعمیرات اور دوسرے کام کرتے رہے۔ مگر ایک سال تک اس طرح کھڑے رہنے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے پورا سال نہ کچھ کھایا، نہ پیا، نہ لباس بدلا، نہ نماز پڑھی یا جماعت کروائی، نہ کسی خدمت گار کے دل میں کوئی فکر پیدا ہوئی، جو ہر روز ان کے لیے ان کاموں کا اہتمام کرتے تھے، نہ امور سلطنت کے متعلق کسی نے ان سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ آیا یہ ممکن بھی ہے؟ میں نے بہت سی تفسیروں کا مطالعہ کیا، مگر انھوں نے اس سوال کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ بعض مفسرین نے اسے استعارہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لاٹھی کو دیمک کے کھانے کا مطلب ان کی سلطنت کا اندرونی طور پر آہستہ آہستہ کمزور ہونا ہے وغیرہ، مگر آیت کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ علامہ مراغی نے اس کا اچھا حل بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’ وَالْكِتَابُ الْكَرِيْمُ لَمْ يُحَدِّدِ الْمُدَّةَ الَّتِيْ قَضَاهَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلٰي عَصَاهُ حَتّٰي عَلِمَ الْجِنُّ بِمَوْتِهِ، وَقَدْ رَوَي الْقَصَّاصُوْنَ أَنَّهَا كَانَتْ سَنَةً، وَ مِثْلُ هٰذَا لَا يَنْبَغِي الرُّكُوْنُ إِلَيْهِ، فَلَيْسَ مِنَ الْجَائِزِ أَنَّ خَدَمَ سُلَيْمَانَ لَا يَتَنَبَّهُوْنَ إِلَي الْقِيَامِ بِوَاجِبَاتِهِ الْمَعِيْشِيَّةِ مِنْ مَأْكَلٍ وَ مَشْرَبٍ وَ مَلْبَسٍ وَ نَحْوِهَا يَوْمًا كَامِلًا دُوْنَ أَنْ يُّحَادِثُوْهُ فِيْ ذٰلِكَ وَ يَطَّلِبُوْا إِلَيْهِ الْقِيَامَ بِخِدْمَتِهِ، فَالْمَعْقُوْلُ أَنَّ الْأَرْضَةَ بَدَأَتِ الْعَصَا وَ سُلَيْمَانُ لَمْ يَتَنَبَّهْ لِذٰلِكَ، وَ بَيْنَمَا هُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلَيْهَا حَانَتْ مَنِيَّتُهُ، وَكَانَتِ الْأَرَضَةُ قَدْ فَعَلَتْ فِعْلَهَا فِي الْعَصَا فَانْكَسَرَتْ فَخَرَّ عَلَي الْأَرْضِ فَعَلِمَتِ الْجِنُّ كِذْبَهَا، إِذْ كَانَتْ تَدَّعِيْ أَنَّهَا تَعْلَمُ الْغَيْبَ، إِذْ لَوْ عَلِمَتْهُ مَا لَبِثَتْ تُرْهِقُ نَفْسَهَا فِيْ شَاقِّ الْأَعْمَالِ الَّتِيْ كُلِّفَتْ بِهَا ‘‘ ’’قرآن کریم نے اس مدت کی تعیین نہیں فرمائی جو سلیمان علیہ السلام نے جنوّں کو ان کی موت کا علم ہونے تک لاٹھی پر ٹیک لگانے کی حالت میں گزاری۔ قصہ گو حضرات نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سال تھی مگر ایسی بات قابل توجہ نہیں ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ سلیمان علیہ السلام کی خدمت کرنے والوں کا پورا ایک دن ان کی معاشی ضروریات یعنی کھانے پینے اور لباس وغیرہ کی طرف خیال ہی نہ جائے، نہ وہ ان سے اس کے بارے میں بات کریں، نہ ان کی خدمت سرانجام دینے کا تقاضا کریں (سال تو بہت دور کی بات ہے)۔ اس لیے معقول بات یہ ہے کہ دیمک پہلے ہی لاٹھی میں لگ چکی تھی، سلیمان علیہ السلام کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔ وہ اس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ ان کی موت کا وقت آ گیا، جب کہ دیمک لاٹھی کے اندر اپنا کام کر چکی تھی۔ چنانچہ وہ ٹوٹ گئی اور سلیمان علیہ السلام زمین پر گر گئے تو جنوّں کو اپنا جھوٹ معلوم ہو گیا، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں، اس لیے کہ اگر وہ اسے جانتے ہوتے تو ان مشقت والے کاموں میں اپنی جان نہ مارتے رہتے جن کی انھیں تکلیف دی گئی تھی۔ ‘‘ مراغی کی رائے اس لیے بھی مضبوط ہے کہ ایک سال کی مدت کی کوئی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، محض اسرائیلی روایات ہیں، جن کا یہ درجہ بھی نہیں کہ انھیں ’’لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُكَذِّبُ‘‘ کہا جا سکے، بلکہ سب صریح عقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک سال مدت بیان کرنے کے باوجود ان روایات کو اسرائیلیات قرار دیا ہے اور مرفوع روایت کو غریب اور ’’فِيْ صِحَّتِهِ نَظْرٌ‘‘ فرمایا ہے اور فی الواقع وہ روایت غیر ثابت ہے۔