إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے (١)۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ....: قرآن مجید میں وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب دونوں کا تذکرہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، شان اور ان کے پاس آپ کی مدح و ثنا کے حوالے کے ساتھ ایمان والوں کو آپ کی مدح و ثنا اور آپ پر صلاۃ و سلام کا حکم دینے کے ساتھ ہی ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو مدح و ثنا کے بجائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتے ہیں۔ فرمایا ان پر اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ مراد ان لوگوں سے منافقین ہیں، جنھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ کسی مومن سے اس بات کا تصور ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ جان بوجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے سے مراد اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کی شان میں گستاخی کرنا اور ان کاموں کا ارتکاب ہے جو اس نے حرام قرار دیے ہیں، مثلاً یہود کا کہنا : ﴿ يَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ﴾ [ المائدۃ:۶۴]، نصاریٰ کا کہنا : ﴿ الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ﴾ [التوبۃ : ۳۰ ] اور مشرکین کا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور بتوں کو اور اللہ کی مخلوق کو اس کا شریک قرار دینا ہے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلٰی أَذًی سَمِعَهُ مِنَ اللّٰهِ، يَدَّعُوْنَ لَهُ الْوَلَدَ، ثُمَّ يُعَافِيْهِمْ وَ يَرْزُقُهُمْ )) [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿ إن اللّٰہ ھو الرزاق....﴾: ۷۳۷۸ ] ’’اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات سن کر صبر کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لیے اولاد قرار دیتے ہیں، پھر بھی وہ انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ عزوجل نے فرمایا : (( يُؤْذِيْنِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَ أَنَا الدَّهْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَ النَّهَارَ )) [مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، باب النہي عن سب الدھر:2؍2246] ’’ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، (اس طرح کہ) وہ زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہوں، رات دن کو میں بدلتا ہوں۔‘‘ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اہلِ ایمان کو ایذا بھی اللہ تعالیٰ کو ایذا ہے، جیسا کہ کعب بن اشرف کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی ہجو کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَی اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهُ )) [ بخاري، الرھن، باب رھن السلاح : ۲۵۱۰ ] ’’کعب بن اشرف (کے قتل) کے لیے کون تیار ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دی ہے۔‘‘ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا سے مراد کسی بھی طرح کی ایذا ہے، جسمانی ہو یا روحانی، آپ کو جھٹلانا ہو یا مخالفت کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح کی تکلیف پہنچائی گئی، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللّٰهِ وَ مَا يُخَافُ أَحَدٌ وَ لَقَدْ أُوْذِيْتُ فِي اللّٰهِ وَمَا يُؤْذٰی أَحَدٌ )) [ترمذي، صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب: ۲۴۷۲] ’’مجھے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ڈرایا گیا اتنا کہ کسی کو اتنا نہیں ڈرایا جاتا اور مجھے اللہ کی خاطر ایذا دی گئی اتنی کہ کسی کو اتنی نہیں دی جاتی۔‘‘ ان ایذاؤں میں مکہ مکرمہ میں شاعر، کاہن، ساحر کہنا، مذاق اڑانا، سجدے کی حالت میں اونٹنی کی اوجھڑی اور آلائش لا کر اوپر ڈال دینا، چادر کے ساتھ گلا گھونٹ دینا، شعب ابی طالب میں تین سال محصور رکھنا، اہلِ طائف کا زبانی بدسلوکی کے علاوہ سنگ باری کرنا وغیرہ شامل ہیں اور مدینہ میں منافقوں کی بد زبانی اور طعنہ زنی بھی، مثلاً ’’ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ‘‘ اور ’’وَ يَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ ‘‘ جیسی باتیں آپ کے لیے شدید ایذا کا باعث تھیں۔ پچھلی آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینے والی بعض ایسی چیزوں سے بھی منع کیا گیا ہے جن کا ایذا ہونا عام طور پر معلوم نہیں تھا، خصوصاً آیت (۵۳) میں بیان کردہ چیزیں۔ 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا میں آپ کی تکذیب اور مخالفت کے علاوہ یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پر طعن و تشنیع کی جائے، یا آپ کے پیاروں کے متعلق بدزبانی کی جائے۔