وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا
اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کرلی تھی انھیں (بھی) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو۔
1۔ وَ اَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْهِمْ: ’’صَيَاصِيْ‘‘ ’’ صِيْصِيَةٌ ‘‘ کی جمع ہے۔ جولاہے کا تانے اور بانے کے دھاگوں کو سیدھا کرنے والا آلہ، مُرغ کا کانٹا جو اس کی ٹانگ کے ایک طرف نکلا ہوتا ہے، گائے اور ہرن وغیرہ کا سینگ، قلعہ اور ہر وہ چیز جس کے ساتھ کوئی اپنا دفاع اور حفاظت کرتا ہے۔ (قاموس) قریش، بنو غطفان اور ان کے ساتھ آنے والوں کے واپس جانے کے ساتھ ہی معرکۂ احزاب ختم ہو گیا، مگر بنو قریظہ کے ساتھ معرکہ ختم نہیں ہوا، جنھوں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ ڈالا تھا۔ جس میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ باہر سے آنے والے حملہ آور کے مقابلے میں مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کی مدد کریں گے، لیکن یہودیوں نے یہ عہد توڑ ڈالا اور قریش اور اتحادی لشکروں کے ساتھ اس بات پر اتفاق کر لیا کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے سے مدینہ پر حملہ آور ہوں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ اور ایک اور انصاری صحابی رضی اللہ عنھم کو اس بات کی تحقیق کے لیے بھیجا اور فرمایا : ’’اگر وہ صلح پر قائم ہوں تو سب کے سامنے بیان کر دینا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو اشارے سے سمجھا دینا۔‘‘ وہ ان کے پاس گئے تو دیکھا کہ انھوں نے معاہدہ بری طرح توڑ ڈالا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی نازیبا الفاظ کہے اور کہنے لگے : ’’محمد کون ہے؟ ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد ہے نہ پیمان۔‘‘ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنھما نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارے سے حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ بنو قریظہ کے ارادے نہایت خطرناک تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ناکام و نامراد کر دیا۔ قریش اور ان کے درمیان بے اعتمادی پیدا ہو گئی اور ان کے قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی نوبت نہیں آئی۔ آخر وہ قلعوں میں بند ہو کر مقابلے پر آمادہ ہو گئے۔ 2۔ وَ قَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آئے تو ہتھیار اتار کر ابھی غسل ہی کیا تھا کہ جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے : ’’آپ نے ہتھیار رکھ دیے، مگر ہم فرشتوں نے ابھی ہتھیار نہیں رکھے، بنوقریظہ کی طرف چلیں۔‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِيْ بَنِيْ قُرَيْظَةَ )) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الأحزاب....: ۴۱۱۹، ۴۱۱۷ ] ’’کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے، مگر بنو قریظہ کے پاس جا کر۔‘‘ چنانچہ آپ نے جا کر بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ ایک ماہ کے قریب جاری رہا، حتیٰ کہ وہ مقابلے سے عاجز آگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رُعب ڈال دیا، آخر کار وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو گئے، اس شرط پر کہ ان کے بارے میں سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ جو فیصلہ کریں انھیں قبول ہو گا۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو خندق کے دوران بازو کی رگ میں تیر لگا تھا، جس کے نتیجے میں آخر کار وہ شہید بھی ہو گئے۔ ان کے سامنے یہ بات بھی تھی کہ اگر بنو قریظہ قریش کے ساتھ بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق کامیاب ہو جاتے تو مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیتے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا۔ 3۔ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ وَ تَاْسِرُوْنَ فَرِيْقًا : ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کی طرف پیغام بھیجا۔ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب مسجد کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا : (( قُوْمُوْا إِلٰی سَيِّدِكُمْ أَوْ خَيْرِكُمْ )) ’’اپنے سردار یا (فرمایا )اپنے بہترین آدمی کی طرف اٹھو۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا : (( هٰؤُلَاءِ نَزَلُوْا عَلٰی حُكْمِكَ)) ’’یہ لوگ تیرے فیصلے پر اترے ہیں۔‘‘ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : ((تُقْتَلُ مُقَاتِلَتُهُمْ وَ تُسْبٰی ذَرَارِيُّهُمْ )) ’’ان کے لڑائی کے قابل مرد قتل کر دیے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنا لیا جائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَضَيْتَ بِحُكْمِ اللّٰهِ وَرُبَّمَا قَالَ بِحُكْمِ الْمَلِكِ )) ’’تو نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘ یا یہ فرمایا : ’’بادشاہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا۔‘‘ [بخاري، المغازي، باب مرجع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الأحزاب....: ۴۱۲۱ ] بنو قریظہ کے عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’میں بنو قریظہ کے قیدیوں میں سے تھا، مسلمان دیکھتے تھے جس کے (زیر ناف) بال اگے ہوتے اسے قتل کر دیتے اور جس کے نہ اگے ہوتے اسے قتل نہ کرتے، چنانچہ میں ان میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے۔‘‘ [ أبوداؤد، الحدود، باب في الغلام یصیب الحد : ۴۴۰۴ ]