سورة الأحزاب - آیت 4

مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو انھیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں (٢) بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا (٣) یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں (٤) اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے (٥) اور وہ سیدھی راہ سمجھاتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِيْ جَوْفِهٖ ....: ’’ أَدْعِيَاءُ‘‘ ’’دَعِیٌّ‘‘ (فَعِيْلٌ بمعنی مفعول) کی جمع ہے۔ اصل مقصود کو بیان کرنے سے پہلے تمہید کے طور پر یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے کہ ایک میں ایمان ہو اور ایک میں کفر۔ سینے میں دل ایک ہی ہے، وہ یا مومن ہو گا یا منافق یا کافر۔ اسی طرح ہر شخص کی ماں ایک ہی ہے، جس کے پیٹ میں سے وہ پیدا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے بعد کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ اس کی ماں بن جائے، نہ تمھارے اپنی بیویوں کو ماں کی طرح حرام کہنے سے وہ ماں بن جاتی ہیں، اور ہر شخص کا باپ بھی ایک ہی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے تو اس کا باپ ایک تھا، پھر کسی نے اس کو بیٹا کہہ دیا تو وہ اس کا باپ بن گیا۔ یہ صرف تمھارے منہ کی باتیں ہیں اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی بات کو نہیں مانتا، وہ تو وہی بات کہتا ہے جو حقیقت اور سچ ہے اور وہ اصل سیدھے راستے ہی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ظہار کا لفظ ’’ ظَهْرٌ ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی پیٹھ ہے، یعنی اپنی بیوی کو یہ کہہ دینا کہ تم مجھ پر ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہو۔ اس کے تفصیلی احکام سورۂ مجادلہ میں آئیں گے۔ منہ بولے بیٹے کے متعلق تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے، اس کی مطلقہ سے نکاح کی تفصیل چند آیات کے بعد آئے گی۔ 2۔ ان آیات میں کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے منع کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اسے حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا، وہ بیٹا بنانے والے کی ولدیت کے ساتھ مشہور ہوتا اور اس کا وارث قرار پاتا تھا، البتہ محبت اور شفقت کے اظہار کے لیے کسی کو بیٹا کہہ کر پکارا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس رضی اللہ عنہ کو ’’يَا بُنَيَّ‘‘ کہہ کر پکارا۔ [دیکھیے مسلم، الآداب، باب جواز قولہ لغیر ابنہ یا بنيّ ....: ۲۱۵۱ ] اور ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی رات ہم بنی عبد المطلب کے چھوٹے لڑکوں کو گدھیوں پر سوار کرکے آگے بھیج دیا تھا، تو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رانوں پر تھپکیاں دے کر فرمانے لگے : (( أُبَيْنِيَّ ! لاَ تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ )) [ أبوداؤد، المناسک، باب التعجیل من جمع : ۱۹۴۰ ] ’’میرے پیارے بیٹو! جب تک سورج طلوع نہ ہو جمرات کو کنکر نہ مارو۔‘‘