يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا (١) اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے (٢)۔
1۔ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ ....: سورت کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ ‘‘ کے خطاب سے ہوتا ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم و تشریف مقصود ہے، کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے انبیاء کو ان کے ناموں کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، جیسا کہ ’’ يٰاٰدَمُ ، يٰنُوْحُ ، يٰاِبْرٰهِيْمُ ، يٰعِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ ‘‘ وغیرہ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ ‘‘ اور ’’ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ ‘‘ کے ساتھ ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ 2۔ اس سورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ دفعہ ’’ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ ‘‘ کے ساتھ مخاطب فرمایا ہے، ایک یہ آیت، دوسری آیت (۲۸) : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا ﴾ ، تیسری آیت (۴۵) : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا ﴾ ، چوتھی آیت (۵۰) : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ﴾ اور پانچویں آیت (۵۹) : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ ﴾ اس سے ظاہر ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی معاملات کا خاص طور پر ذکر ہے۔ اگرچہ مقصود امت کی تعلیم بھی ہے۔ 3۔ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَ الْمُنٰفِقِيْنَ : یہ سورت سن پانچ ہجری کے آخر میں غزوۂ احزاب کے زمانے میں نازل ہوئی۔ یہ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر نہایت مشکل اور آزمائش کا تھا، کیونکہ قریش، غطفان، ہذیل اور پورے عرب کے مشرکین مل کر اسلام کو مٹانے کی آخری کوشش کے لیے دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ان کی مدد مدینہ کے یہود اور منافقین بھی کر رہے تھے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اسی زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانۂ جاہلیت کی کچھ ایسی رسوم کو توڑنے کا حکم ہوا جو اس وقت سب لوگوں کے ہاں مسلّمہ تھیں، مثلاً بیوی کو ماں کہہ دیا جائے تو اسے ماں ہی کی طرح حرام سمجھنا، منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا مقام دے کر وارث بنانا، اس کی بیوی کے ساتھ بہو کی طرح نکاح حرام سمجھنا وغیرہ۔ متبنٰی (منہ بولا بیٹا) بنانے کی یہ رسم اتنی مستحکم تھی کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے عمل سے اسے نہ توڑتے اس کا ختم ہونا مشکل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ جاہلیت کی رسوم میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ غلام آزاد بھی ہو جائے تو وہ اسے حقیر ہی سمجھتے اور آزاد لوگوں کا درجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس رسم کو توڑا اور اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا کا نکاح، جو نہایت عالی خاندان سے تھیں، اپنے آزاد کردہ غلام زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا، مگر دونوں میں موافقت نہ ہو سکی، تو زید رضی اللہ عنہ نے اسے طلاق دے دی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ زینب رضی اللہ عنھا سے نکاح کر لیں، کیونکہ اس نے زید سے نکاح کرکے بہت بڑی قربانی دی تھی اور اس کی دل جوئی بھی مقصود تھی۔ مگر ڈر یہ تھا کہ پورے عرب کے مشرکین اور منافقین اس پر طعن و تشنیع کا طوفان برپا کر دیں گے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) بہو سے نکاح کو حرام کہتے ہیں اور خود بہو سے نکاح کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ چار بیویوں سے نکاح جائز تھا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب سے نکاح کرتے تو یہ پانچویں بیوی ہوتی، کیونکہ اس سے پہلے سودہ، عائشہ، حفصہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھن آپ کے نکاح میں تھیں۔ اس پر بھی کفار و منافقین کو طعن کا موقع ملتا، اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ .....‘‘ کہہ کر زیادہ بیویاں رکھنے کی خصوصی اجازت عطا فرمائی۔ غرض اس قسم کی کئی باتوں کی اصلاح کرنا تھی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار و منافقین کے طوفان اٹھانے کے خوف سے انقباض محسوس کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورت کا آغاز ہی اس بات سے کیا : ’’اے نبی! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مان۔‘‘ یہ لمبی بات کو مختصر کرنے کی ایک خوب صورت مثال ہے، جو یہ تھی کہ اللہ سے ڈر، کفار و منافقین یا کسی اور سے مت ڈر اور اللہ کا حکم مان اور کفار و منافقین کا کہنا مت مان۔ 4۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا:’’ اِنَّ ‘‘ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی یہ کسی بات کی وجہ بیان کرتا ہے۔ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کا علم رکھنے والا، کمال حکمت والا ہے‘‘ یعنی اس کے احکام، علم و حکمت پر مبنی ہیں، جب کہ کفار کے رسوم و رواج اور ضابطوں کی بنیاد وہم و گمان، جہل اور بے وقوفی پر ہے۔ آگے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ منہ سے کہہ دینے سے کوئی عورت ماں نہیں بن جاتی، نہ کوئی شخص منہ سے کہہ دینے سے بیٹا بن جاتا ہے۔ وہ تقدیس جو حقیقی ماں، بہن، بیٹی اور بہو کے رشتے میں ہوتی ہے، مصنوعی رشتے میں کبھی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ رشتے عام میل ملاپ کی وجہ سے برائی پھیلنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے کسی کافر یامنافق سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، ایک اللہ سے ڈریں اور اسی کا حکم مان کر جاہلیت کی ان تمام رسوم کا خاتمہ کر دیں۔ 5۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے امت کو تنبیہ کی مؤثر ترین صورت اختیار فرمائی گئی ہے کہ جب یہ حکم سب سے بڑے شخص کو ہے تو دوسروں کے لیے تو اس کی تاکید اس سے بھی زیادہ ہے۔