سورة آل عمران - آیت 61

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ (١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ:سورت کے شروع سے لے کر یہاں تک اللہ تعالیٰ کی توحید، مسیح علیہ السلام کی ولادت کا بیان اور ان کا اللہ یا اللہ کا بیٹا نہ ہونا زبردست علمی دلائل کے ساتھ بیان ہوا، اب حکم ہوا کہ جو شخص اتنے واضح دلائل کے بعد بھی نہ مانے تو وہ عناد پر آمادہ ہے، اس سے بحث کا کوئی فائدہ نہیں، پھر انھیں مباہلہ کی دعوت دو۔ 2۔ مباہلہ کی صورت یہ بیان فرمائی کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمہیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ ’’ بَهَلَ يَبْهَلُ (ف)‘‘ کا معنی لعنت کرنا ہے اور ’’ بَاهَلَ مُبَاهَلَةً ‘‘ اور ’’اِبْتَهَلَ يَبْتَهِلُ ‘‘ کا معنی ایک دوسرے پر لعنت کی دعا کرنا ہے، چونکہ یہ دعا نہایت خلوص اور عاجزی سے ہوتی ہے، اس لیے ’’اِبْتَهَلَ‘‘ کا لفظ عاجزی سے دعا کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ 3۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:﴿فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ....﴾ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا، پھر فرمایا:(( اَللّٰهُمَّ هٰؤُلاَءِ اَهْلِيْ )) ’’اے اللہ ! یہ میرے اہل ہیں۔‘‘ [مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضی اللّٰہ عنہ:۳۲؍۲۴۰۴ ] مگر اہل نجران مباہلہ سے ڈر گئے اور انھوں نے جزیہ دینا منظور کر لیا، جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عاقب اور السید نجران والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ آپ سے مباہلہ کا ارادہ رکھتے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:’’ایسا مت کرو، کیونکہ اللہ کی قسم ! اگر یہ نبی ہوئے اور ہم نے مباہلہ کر لیا تو نہ ہم کبھی فلاح پائیں گے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسل۔‘‘ تو دونوں نے کہا:’’آپ نے ہم سے جو مطالبہ کیا ہے ہم آپ کو دیں گے اور آپ ہمارے ساتھ کوئی امین آدمی بھیج دیں اور کسی اور کو نہیں صرف امانت دار کو بھیجیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یقینا میں تمہارے ساتھ ایک سچے پکے امانت دار کو بھیجوں گا۔‘‘ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے گردنیں اٹھائیں (کہ کس پر آپ کی نظر پڑتی ہے) تو آپ نے فرمایا:’’اے ابوعبیدہ بن جراح ! اٹھو۔‘‘ جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ اس امت کا امین ہے۔‘‘ [بخاری، المغازی، باب قصۃ أہل نجران:۴۳۸۰ ] ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اگر وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرتے تو اس حال میں واپس جاتے کہ نہ اپنے اہل کو پاتے اور نہ مال کو۔‘‘ (طبری بسند حسن) 4۔ اس آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ ضد میں آ کر حق سے انکار کرنے والے سے مباہلہ ہو سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لعان بھی مباہلہ کی ایک صورت ہے۔ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ:آیت مباہلہ میں اپنے بیٹوں اور اپنی عورتوں کو بلانے کا ذکر ہے۔ ”نِسَآءَ“ (عورتوں) کا لفظ بیویوں پر استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ احزاب میں بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو ”يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ“ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور انھیں اہل بیت کہہ کر خطاب کیا ہے۔ ( دیکھیے احزاب:۳۰ تا ۳۴ ) اولاد پر بیٹیوں کا لفظ آتا ہے نہ کہ عورتوں کا، ہاں، دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر ان پر بھی یہ لفظ آ سکتا ہے۔ یہاں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے فاطمہ، علی اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا، آپ کے اہل بیت یہی تھے، بیویوں کو نہیں بلایا، حالانکہ کسی حدیث میں بیویوں کو نہ بلانے کا ذکر نہیں ہے اور یہ طے شدہ قاعدہ ہے کہ کسی چیز کا ذکر نہ ہونے سے اس کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ احادیث میں تو دوسرے صحابہ کو بلانے کا یا ان کے آنے کا بھی ذکر نہیں، تو کیا وہاں اور کوئی بھی موجود نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے تو آپ کی بیویاں ہی تھیں، بیٹا کوئی زندہ نہ تھا، اس لیے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے آل علی کو اپنے اہل میں شامل کروایا، دلیل اس کی لفظ ”اَللَّهُمَّ“ ہے اور یہ تو معروف ہے کہ بیٹی کی اولاد کی نسبت اس کے خاوند اور خاوند کے آباء و اجداد کی طرف ہوتی ہے، نہ کہ نانا کی طرف۔ ہاں، یہ علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی خصوصیت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے وہ بھی اہل بیت ہیں، مگر بیویوں کو جو اصل گھر والی ہیں انھیں گھر والوں ہی سے نکال دینا محض تعصب ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ انھیں گھر والیاں فرما رہا ہے، فرمایا:﴿لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ ﴾ [الأحزاب:۳۳ ] ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے اہل بیت!‘‘ اور جبریل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ علیہا السلام کو ﴿رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ﴾ کے الفاظ سے مخاطب کر رہے ہیں، یعنی ’’ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے اہل بیت!‘‘ [ہود:۷۳ ]